Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 28
وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بیحیائی قَالُوْا : کہیں وَجَدْنَا : ہم نے پایا عَلَيْهَآ : اس پر اٰبَآءَنَا : اپنے باپ دادا وَاللّٰهُ : اور اللہ اَمَرَنَا : ہمیں حکم دیا بِهَا : اس کا قُلْ : فرمادیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَاْمُرُ : حکم نہیں دیتا بِالْفَحْشَآءِ : بیحیائی کا اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو (لگاتے ہو) عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور یہ لوگ جب بےحیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے ایسا ہی کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے تم کہہ دو اللہ کبھی بےحیائی کی باتوں کا حکم نہیں دے گا کیا تم اللہ کے نام پر ایسی بات کہنے کی جرأت کرتے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ؟
بری رسومات کا فلسفہ اور ان کے مہلک اثرات کا مختصر بیان : 35: ” فَاحِشَةً “ اس کھلی بےحیائی کو کہتے ہیں جو حددرجہ قبیح اور معیوب ہو جس کو اندھوں اور احمقوں کے سوا سب لوگ بےحیائی قرار دیں۔ اس سے مراد قوموں کے سارے عقائد باطلہ اور اعمال قبیحہ ہیں جو نزول قرآن کے وقت قریش مکہ اور دوسری قوموں میں پائے جاتے تھے اور اس کے بعد آج تک پائے گئے اور اس وقت موجود ہیں اور رہتی دنیا تک موجود رہیں گے یا نئے نئے پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس جگہ سرفہرست قریش کے بعض قبائل کی یہ رسم بد ہے جو ننگے طواف کرنے کی ان میں پائی جاتی تھی جس کی طرف پیچھے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت کی بےحیائیوں میں سے یہ بھی ایسی ہی بےحیائی ہے جس کے متعلق وہ کہتے تھے کہ اس کے کرنے کا ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے اور ہمارے بڑے اور بزرگ اسی طرح کرتے چلے آرہے ہیں اور اس طرح کی بیشمار مثالیں مندروں ، کلیسائوں ، درباروں اور مزاروں کے پروہتوں اور پجاریوں کی شیطنت سے وجود میں آئی ہیں جن کو مذہبی تقدس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ایسی بےشرمی اور بےحیائی کی بات اور وہ بھی بیت الحرم میں آئی ہیں جن کو مذہبی تقدس کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ استغفر اللہ۔ اللہ کبھی بےحیائی کی باتوں کا حکم نہیں دیتا ، تم اللہ پر افتراء نہ کرو : 36: اے پیغمبر اسلام ! ” تم کہہ دو کہ اللہ کبھی بےحیائی کی باتوں کا حکم نہیں دیتا۔ “ کیونکہ ایسا حکم دینا اس کی شان ایزدی کے خلاف ہے تم اتنے بدکردرا اور بد اخلاق ہوچکے ہو کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگے ہو۔ کیا تم اللہ کے نام پر ایسی بات کہنے لگے ہو جس کے لئے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔ “ آخر ایسی بات کہنے کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ؟ یقیناً نہیں اور ظاہر ہے کہ بلا تحقیق کسی شخص کی طرف بھی کسی کام کو منسوب کرنا انتہائی دلیری اور ظلم ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کسی نقل کی ایسی غلط نسبت کرنا کتنا بڑا ظلم اور کتنا بڑا جرم ہوگا۔ زیر نظر آیت نے یہ بات واضح کردی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی ایسی بات کو جو خود اللہ نے قرآن کریم اور نبی ﷺ کی زبان اقدس سے نہ بیان کی ہو نسبت کرنا بہت بڑا جرم ہے اور خصوصاً جب اس کو ایک صاحب شعور انسان بھی پسند نہ کرے اور ایسی بات کے متعلق بےدھڑک کہہ دینا۔ یہ اللہ پر افتراء اور جھوٹ ہے بالکل صحیح اور درست ہوگا کیونکہ وہ سراسر اللہ تعالیٰ پر ایسا الزام ہوگا جس کی تردید ہر مسلمان پر لازم اور ضروری ہوگی۔ غور کرو کہ جب اللہ نے انسانوں کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ ذرا شعور میں آنے کے بعد مرتے دم تک کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسروں کے سامنے عریاں ہو تو وہ اس انسان کو یہ حکم کس طرح دے سکتا ہے کہ وہ عین اس کے حرم میں سارے انسانوں کے مجمع کے سامنے ننگا ہوجائے حالانکہ اس مجمع میں مرد بھی ہوں اور عورتیں بھی یہ تو انسانی فطرت سلیم کے ساتھ کھلا ظلم ہے اور اللہ ایسے ظلم کا کبھی حکم نہیں دیتا۔
Top