Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 29
قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ١۫ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ؕ۬ كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَؕ
قُلْ : فرما دیں اَمَرَ : حکم دیا رَبِّيْ : میرا رب بِالْقِسْطِ : انصاف کا وَاَقِيْمُوْا : اور قائم کرو (سیدھے کرو) وُجُوْهَكُمْ : اپنے چہرے عِنْدَ : نزدیک (وقت) كُلِّ مَسْجِدٍ : ہر مسجد (نماز) وَّادْعُوْهُ : اور پکارو مُخْلِصِيْنَ : خالص ہو کر لَهُ : اسکے لیے الدِّيْنَ : دین (حکم) كَمَا : جیسے بَدَاَكُمْ : تمہاری ابتداٗ کی (پیدا کیا) تَعُوْدُوْنَ : دوبارہ (پیدا) ہوگے
تم کہو میرے پروردگار نے جو کچھ حکم دیا ہے وہ تو یہ ہے کہ اعتدال کی راہ اختیار کرو ، اپنی تمام عبادتوں میں اللہ کی طرف توجہ درست رکھو اور دین کو اس کیلئے خالص کر کے اسے پکارو ، اس نے جس طرح تمہاری ہستی شروع کی اسی طرح لوٹائے جاؤ گے
اعلان فرما دیجئے کہ میرے رب کا تو ہر حکم اعتدال و انصاف کا ہے : 37: قسط کیا ہے ؟ قسط انصاف و اعتدال کا دوسرا نام ہے۔ اس جگہ قسط سے مراد وہ عمل ہے جو افراط وتفریط سے خالی ہو یعنی نہ تو اس میں کسی قسم کی کوتاہی ہو اور نہ ہی مقررہ حد سے تجاوز ہو اور شریعت اسلامی کے ایک ایک حکم کو اس کسوٹی پر رکھ کر دیکھتے جائو یقیناً ایک حکم بھی اس کے خلاف نہیں ہوگا۔ اس لئے لفظ ” قسط “ ایک جامع حقیقت ہے جو تمام شریعت الٰہی کی روح ہے یعنی ہرچیز میں ٹھیک ٹھیک نقطہ عدل و اعتدال کا اہتمام۔ اس کا تعلق زندگی کے کسی ایک پہلو سے نہیں بلکہ ہر پہلو سے ہے۔ عقائد سے ، اعمال سے ، عبادات سے ، اخلاق سے ، معشتی سے ، معاشرت سے ، قانون سے ، سیاست سے غرض ہر شعبہ زندگی سے اور یہی وہ اصل الاصول ہے جس پر شریعت الٰہی مبنی ہے۔ دین الٰہی کا تمہاری ان بیہودہ رسموں سے کیا تعلق۔ اس نے جس دین کی تعلیم دی ہے اس کے بنیادی اصول عدل و انصاف اور اعتدال ہیں اس لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی کو عدل وراستی کی بنیاد پر قائم کرے۔ اللہ کی طرف متوجہ رہو ، دین کو اس کے لئے خالص کرو اور اسی کو پکارو : 38: مطلب یہ ہے کہ عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو یعنی اللہ رب العزت کے سوا کیے کی بندگی نہ کرو اور نہ ہی اس کی بندگی میں کسی دوسرے کو شریک کرو۔ معبود حقیقی صرف اور صرف وہ ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو ، تمہارا عجز ونیاز کا رخ ذرا نہ پھرنے پائے۔ رہنمائی ، تائید ونصرت اور نگہبانی و حفاظت کے لئے اللہ ہی سے دعا مانگو اور دعا مانگنے سے پہلے اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کرلو ایسا نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفرو شرک اور معصیت اور بندگی غیر پر چلایا جا رہا ہو اور مدد اللہ سے مانگتے رہو کہ خدایا ! یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں اس میں ہماری مدد فرما۔ غور کرو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ زیر نظر آیت میں دین حق کے تین بنیادی اصول واضح کر دئیے۔ عمل میں اعتدال ، عبادت میں توجہ اور خدا پرستی میں اخلاص اس لئے یہ آیت خدا پرستی میں اصل الاصول ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا فرمایا ” دین کو خدا کے لئے خالص کر کے اسے پکارو یعنی دین کی جتنی باتیں ہیں وہ صرف خدا ہی کے لئے مخصوص کردو “ جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا ہے اسی طرح تم لوٹائے بھی جائو گے : 39: ” كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَؕ0029 “ اس بات پر یقین رکھو کہ جس طرح اس دنیا میں تم پیدا ہوئے اسی طرح دوسرے عالم میں بھی وہ تم کو لوٹا دے گا۔ “ گویا یہ ” قسط “ ہی کا تقاضا ہے کہ جب اس نے پیدا کیا ، پرورش کے وسائل واسباب فراہم کئے ، خیر وشر کا امتیاز بخشا تو وہ حساب و کتاب بھی کرے اور جزا وسزا بھی دے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ ” قسط “ نہیں بلکہ ظلم وجور ہے اور یہ ذات الٰہ سے محال ہے۔ ” جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا ہے اسی طرح تم لوٹائے بھی جائو گے۔ “ اس پر مفسرین نے بہت بحث کی ہے اور بہت سے بزرگوں نے یہ لکھا ہے کہ حشر کے روز سارے مرد اور عورتیں ، بوڑھے ، جوان اور بچے سب ننگے اور غیر مختون اٹھیں گے کیونکہ وہ پیدائش کے وقت ایسے ہی پیدا ہوئے تھے۔ “ گویا اس آیت سے پہلی آیت میں جو طواف کرنے میں ننگے ہوئے ان کو جو کچھ کہا وہ اس آیت پر پہنچتے ہی گویا منسوخ ہو گاو۔ وہاں جس چیز کو ظلم وجور قرار دیا یہاں بڑی خوبصورتی سے اس کو تسلیم کرلیا۔ بیت اللہ میں جو فعل حرام تھا میدان حشر میں پہنچتے ہی وہ حلال ہوگیا اور اتنے ہی میں ہمارے علمائے کرام بھول گئے کہ دنیا میں پہلے پیدا ہونے والے بھی ننگے نہیں تھے ان کے جسموں پر یقیناً لباس تھا چاہے وہ کیا تھا اگرچہ ہم اس کی حقیقت نہیں سمجھتے لیکن اگر کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو اس میں ہماری سمجھ کا قصور ہے۔ حقیقت تو اس سے نہیں بدلتی۔ اگر وہ ننگے ہوتے تو ان سے کونسا لباس اترتا جس کے اترنے کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے اور جس پر تم نے اتنی بڑی بحث کر کے بیسیوں صفحات سیاہ کئے ہیں اور اگر وہ اس وقت بھی ننگے نہیں تھے یہ بات آپ کو قبول ہے تو حشر کے میدان میں لوگوں کو ننگا کرنے اور ننگا دیکھنے کا نظریہ تم نے کہاں سے نکال لیا ہے ؟ جس بات کو تم نے دو منٹ پہلے پہاڑ سمجھا تھا وہ ٹھیک دو منٹ کے بعد رائے کیسے ہوگیا ؟ کیا بات تو نہیں کہ جب تمہارا جی چاہے ننگا کرلو لیکن دوسروں کو اس کی اجازت نہیں اس لئے کہ تم ننگا کرو گے تو بہر حال قرآن پڑھ کر کرو گے اور وہ بھی میدان حشر میں پھر۔ غور کرو کہ تم نے کیا نظریہ پیش کیا اور قرآن کریم کی آیت کا سیدھا مطلب چھوڑ کر الٹا مطلب کیسے نکال لیا ؟ تعجب ہے کہ پھر اس بات کو صحابہ کرام ؓ کے نام سے نبی اعظم وآخر ﷺ کے ذمہ لگادیا اور پھر اس تعجب پر تعجب یہ کہ رفع الیدین ، آمین اور فاتحہ خلف الامام کی احادیث صحیحہ پر بحث کرنے والوں نے اس طرح کی بےسروپا روایات کو صحیح حدیث کے طور پر بیان کیا۔ حالانکہ روایات میں اس کے اور بھی بہت سے مفہوم بیان کئے گئے تھے لیکن ان سب کو چھوڑ کر اس کا کیوں انتخاب کیا گیا ہے ؟ مثلاً یہ کہ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو مومن پیدا کیا اور کسی کو کافر پیدا کیا اور خود قرآن کریم میں بھی یہ مضمون اس طرح بیان ہے کہ ھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن اور اس قول کی تائید حدیث ابن مسعود ؓ سے بھی ہوتی ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ ” خدا کی قسم کوئی شخص اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ نوشتہ تقدیر اس پر غالب آتا ہے اور وہ اہل نار کے عمل کرنے لگتا ہے اور اسی پر مر جاتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص عمر بھر اہل دوزخ کے سے عمل کرتا ہے اور دوزخ سے ایک گز کی دوری رہ جاتی ہے کہ کتاب الٰہی اس پر غالب آجاتی ہے پھر وہ جنتیوں کے سے عمل کر کے مرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ مطلب صاف صاف ہے کہ علم الٰہی ہرچیز پر محیط ہے کیونکہ وہ غیر مبدل ہے اور انسانی علوم اس کے مقابلہ میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے کیونکہ وہ سب مبدل ہیں۔ انسان اول کے لباس کی کیا شکل و صورت تھی ؟ اور میدان حشر کے انسانوں کے لباس کی کیا شکل و صورت ہوگی ؟ یہ علم الٰہی کا مسئلہ ہے انسانی علم کا نہیں۔ انسانی علم کا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو لباس پہننا ضروری ہے اور کسی حال میں بھی سوسائٹی میں ننگا ہونا قابل ننگ عار ہے۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ رہے یہ مائوں کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے تو وہ یقیناً پہلی پیدائش نہیں اور اسی طرح یہ بھی کہ تم فوراً ان کو کپڑے پہنا دو اس لئے کہ یہ تمہارے ننگے ہونے کا نتیجہ ہیں اور اس پر کپڑا ڈالنا تمہارا فرض ہے۔
Top