Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 3
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
اِتَّبِعُوْا : پیروی کرو تم مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف (تم پر) مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَلَا تَتَّبِعُوْا : اور پیچھے نہ لگو مِنْ : سے دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اَوْلِيَآءَ : رفیق (جمع) قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَذَكَّرُوْنَ : نصیحت قبول کرتے ہو
جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے مددگاروں کے پیچھے نہ چلو ، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو
اللہ کے نازل کردہ قرآن کی پیروی کرو اور اپنے مددگاروں کے پیچھے مت لگو : 3: ” اولیاء “ ولی کی جمع ہے اس کے معنی ” مددگار “ اور ” سرپرست “ کے ہیں۔ اس جگہ یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے کہ انسان جس کی رہنمائی پر چلتا ہے اسے درحقیقت ” ولی “ یعنی مددگار یا سرپرست بناتا ہے خواہ زبان سے اس کی حمد وثنا کے گیت گاتا ہو یا اس پر لعنت کی بوچھاڑ کرتا ہو۔ اس کی مددگاری اور سرپرستی کا معترف ہو خواہ بہ شدت اس سے انکار کرتا ہے۔ معبودان باطل کے متعلق گمراہ انسانوں کے مختلف عقائد اور بہت سے مختلف طرز عمل ہیں جن کو قرآن کریم نے ” اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی بنانے “ سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات کریمات سے لفظ ” ولی “ کے حسب ذیل مفہوم معلوم ہوتے ہیں۔ 1۔ جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں ما فوق الفطرت طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے۔ آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے ، اسے روز گار دلاتا ہے ، اولاد دیتا ہے ، مرادیں برلاتا ہے اور اسی طرح دوسری ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لئے سورة ہود 11 کی آیت 20 ، سورة الرعد 13 کی آیت 16 اور سورة العنکبوت 29 کی آیت 41 پر نظر کرلیں۔ 2۔ جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں وہ مجھے ان کے برے نتائج سے اور اگر خدا ہے اور آخرت بھی ہونے والی ہے تو وہ اس کے عذاب سے بچا لے گا۔ اس مضمون کو دیکھنے کے لئے سورة النساء 4 کی آیت 123 ، 173 ، سورة الانعام کی آیت 51 سورة الرعد کی آیت 3 ، سورة العنکبوت 29 کی آیت 22 ، سورة الاحزاب 33 کی آیت 65 ، سورة الزمر 39 کی آیت 13 ملاحظہ کرلیں۔ 3۔ جس کی رہنمائی پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے والا اور غلطی سے بچانے والا ہے۔ اس طرح کا مضمون آپ سورة البقرہ کی آیت 275 ، سورة بنی اسرائیل 17 کی آیت 97 ، سورة الکہف 18 کی آیت 17 ، 50 اور سورة الجاثیہ 45 کی آیت 19 ملاحظہ کریں۔ 4۔ جس کے کہنے پر آدمی چلے ، جس کی ہدایات پر عمل کرے اور جس کے مقرر کئے ہوئے طریقوں ، رسموں ، رواجوں اور قوانین و ضوابط کی پیروی کرے۔ اس مضمون کو دیکھنے کے لئے سورة النساء 4 کی آیت 18 تا 20 ، سورة الاعراف 7 کی آیت 3 ، 27 تا 30 کا مضمون دیکھیں۔ قرآن کریم کے بعض مقامات پر ” ولی “ کا لفظ ان معنوں میں کسی ایک یا دو معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر جامعیت کے ساتھ اس کے سارے ہی مفہومات مراد ہیں اور آیت زیر نظر کی تشریح انہی میں سے ایک ہے۔ اس جگہ ” اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے “ سے مراد مذکورہ بالا چاروں معنوں میں ان کو اپنا سرپرست اور حامی و مددگار سمجھنا ہے۔ یہ آیت تقلید شخصی کی جڑیں کاٹ دیتی ہے اور دنیا کے سارے مقلدین کو چیلنج کرتی ہے کہ تم انہوں نے ؟ ؟ ؟ تم کو کب اپنی تقلید کا حکم دیا تھا اگر اس کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اور اگر دلل نہیں اور یقیناً نہیں تو تقلید شخصی کے اندھیرگھپ گھیر گڑھے سے باہر نکل آئو اور اس سورج کی روشیی سے فائدہ حاصل کرو جس کو اللہ نے ” سراجاً منیراً “ کہہ کر چمکایا ہے اور جس کی چکا چوند روشنی کے سامنے سارے ستارے اور چاند ماند پڑجاتے ہیں اور جو قیامت تک غروب ہونے والا نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اس آیت کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ کی شخصیت کو شامل کر کے احادیث کی روشنی میں انکار کرنے کی کوشش کی ہے اور بڑے زور دار الفاظ میں یہ کہا ہے کہ قرآن کریم کی موجودگی میں رسول ﷺ کی حدیث کی آخر ضرورت کیا ہے ؟ لیکن ان کو یہ بھول لگی ہے کہ اگر اللہ کی موجودگی میں رسول ﷺ کی ضرورت ہے تو اللہ کے کلام کی موجودگی میں کلام رسول ﷺ کی بھی یقیناً ضرورت ہے۔ ہمت کر کے رسول کی رسالت سے انکار کرو ورنہ کامیابی تمہارے لئے ممکن نہیں اور یاد رہے کہ رسول کی رسالت کا انکار اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کا انکار ہے۔ رہی یہ بات کہ رسول کی رسالت کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کا دوسرا نام رسول ﷺ کی رسالت ہے۔ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری اور رسول ﷺ کی رسالت دونوں لازم وملزوم ہیں۔ جن میں سے ایک کا انکار دوسرے کا خود بخود انکار ہے اس لئے کہ ” مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ 1ۚ“ قرآن کریم کا اعلان عام ہے۔ بلاشبہ رسول آیا اور اپنے وقت پر چلا گیا لیکن اس کی رسالت تا قیامت جاری وساری رہے گی اور کوئی زمانہ بھی اس کی رسالت سے خالی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کو رسول کی رسالت کے ساتھ پیوست کیا گیا کیونکہ اللہ کی فرمانبرداری رسول کی فرمانبرداری کے سوا ممکن نہیں ہے۔ اس بات میں اختلاف ممکن ہے کہ آیا یہ کلام یا یہ بات رسول ﷺ کی ہے یا نہیں ؟ جب یہ بات طے ہوجائے کہ یہ کلام رسول اللہ ﷺ کا ہے تو اس سے انکار کتاب اللہ سے انکار کے مترادف ہے۔ اسی طرح ” کتاب اللہ “ طے ہے اور وہ ” الحمد “ سے لے کر ” والناس “ تک الفاظ اور رسم الخط تک محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے ذمہ ہے جو ظن و گمان سے مبرا ہے اور احادیث کا درجہ ثانی پوری امت میں تسلیم ہے اور ان کی درجہ بندی کردی گئی ہے مزید کلام کی یہاں گنجائش نہیں۔
Top