Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 4
وَ كَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآئِلُوْنَ
وَكَمْ : اور کتنی ہی مِّنْ : سے قَرْيَةٍ : بستیاں اَهْلَكْنٰهَا : ہم نے ہلاک کیں فَجَآءَهَا : پس ان پر آیا بَاْسُنَا : ہمارا عذاب بَيَاتًا : رات میں سوتے اَوْ هُمْ : یا وہ قَآئِلُوْنَ : قیلولہ کرتے (دوپہر کو آرام کرتے)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا چناچہ ایسا ہوا کہ لوگ راتوں کو بیخبر سو رہے تھے یا دوپہر کے وقت استراحت میں تھے کہ اچانک عذاب کی سختی نمودار ہو گئی
کتنی ہی بستیاں تھیں جن کو اللہ نے اپنے قانون کے مطابق ہلاک کردیا : 4: قابل غور بات یہ ہے کہ جن جماعتوں نے دعوت حق کا مقابلہ کیا۔ وہ پاداش عمل میں ہلاک ہوگئیں کیونکہ انکار وسرکشی کا نتیجہ ہلاکت ونامرادی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دعوت حق کو ماننے والے باقی رہے ؟ کامیابی و کامرانی کے بعد موت کا آنا اور ناکام ونامراد حکم الٰہی کے مطابق عذاب کی صورت میں ہلاک ہونے میں اگر کوئی فرق نہیں تو سوال صحیح ہے اور اگر ان دونوں مدتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو یہی اس کا جواب ہے۔ اس دنیا میں جو پیدا ہوا اس کو بہرحال مرنا لازم ہے کافر ومسلم کی موت میں فرق یہ ہے کہ مسلم مرنے کے بعد جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو ابدی انعامات الٰہی میں رہے گا اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے گا اور کافر مرنے کے بعد جب دوبارہ اٹھایا جائے گا تو ابدی عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا اور وہیں دوزخ کے قید خانہ میں بند کردیا جائے گا جہاں سے نکلنا اس کے لئے محال ہوگا اور اب نہیں تو انشاء اللہ یقیناً اس وقت دونوں زندگیوں کا فرق معلوم ہوجائے گا۔ بلا شبہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی معاشی خوش حالی اور دنیاوی عزوجاہ کی وجہ سے یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ زندگی کا جو راستہ اس نے اختیار کر رکھا ہے وہ راہ راست ہے اور اس کا آفتاب اقبال اسی طرح ہمیشہ درخشاں رہے گا اس لئے وہ کسی رہنما کی دعوت کو غور سے سننا ہی گوارا نہیں کرتا۔ یہی حالت مکہ کے سرداروں اور دولت مندوں کی تھی وہ اپنے جاہ و جلال اور عزت ووقار پر اتنے مطمئن تھے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پیغام کی طرف متوجہ ہونا ہی غیر ضروری سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت اور اس جیسی بہت سی آیات میں ان کی چشم ہوش سے غفلت کا پردہ اٹھانے کے لئے سابقہ قوموں کے عبرت ناک انجام کا ذکر فرماتا ہے کہ تمہاری طرح وہ بھی دنیا کی فنا پذیر لذتوں میں محو تھے اور ہمارے نبیوں کی دعوت پر غوروفکر تک کرنا اپنے لئے کسر شان سمجھتے تھے لیکن جب انہوں نے ہدایت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا تو ایسے لمحوں میں اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر نازل ہوا ایسے وقت میں جب کہ وہ خواب راحت کے مزے لوٹ رہے تھے۔ ان کو خبر تک نہ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کو نیست ونابود کردیا گیا۔ اس لئے اے اہل مکہ اس ڈھیل پر مت غرور کرو کہ مہلت کی گھڑیوں کو غنیمت جانو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی ایسے ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑے۔ ان کا عذاب اکثر موعود تھا لیکن ان کو اپنے اپنے نبی کی بات پر یقین کب تھا ؟ وہ جس چیز کو مذاق سمجھتے تھے وہ اچانک ان کے سروں پر آکھڑی ہوئی اور جن کے لئے رات کے وقت کی تعین تھی ان پر رات کے وقت ہی عذاب آیا جیسے قوم لوط (علیہ السلام) پر اور جن کے لئے دن کی گھڑیاں مقرر تھیں ان پر دن کے قیلولہ کے وقت کہ وہ آرام کر رہے تھے جیسے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر۔ اس طرح جب وہ عذاب میں مبتلا ہوئے تو ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکا۔
Top