Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 60
قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا : بیشک ہم لَنَرٰكَ : البتہ تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اس پر اس کی قوم کے سربر آوردہ لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تو صریح گمراہی میں پڑگیا ہے
قوم کے سربر آوردہ لوگوں کا نوح (علیہ السلام) کو جواب : 71: نوح (علیہ السلام) نے قوم کو دعوت الٰہی سنائی ہی تھی کہ قوم کے سر بر آوردہ لوگ فوراً بول پڑے کہ نوح (علیہ السلام) ! تم نے باپ دادا کے دین کی تحقیر شروع کردی ہے جس کا انجام تمہارے حق میں کبھی اچھا نہیں نکل سکتا۔ جن معبودوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ان کا تم نے انکار کیا ہے اس لئے باغی تم ہو لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ تم ہمیں عذاب کی دھمکیاں سنانے لگے ہو اور تم کو اپنی اور ہماری حالت کا بھی ذرا خیال نہیں آیا کہ ہماری بات کو ہر آدمی سننے والا ہے اور تمہاری اس دعوت پر کوئی بھی کان نہیں دھر سکتا اس لئے کہ یہ بات تو پورے معاشرہ کے لوگوں کے خلاف ہے اور تم اس پوزیشن میں بھی نہیں ہو کہ تمہاری بات سننے کے لئے کوئی تیار ہو۔ یہ بات اس سے قبل کئی دفعہ عرض کی جا چکی ہے کہ ہر صححز ، سچی اور اصلاحی تحریک کی مخالفت میں سب سے پیش پیش قوم کے امراء اور اہل وجاہت ہی ہوتے رہے ہیں یہی تاریخ کا تجزیہ ہے۔ اسی کو قرآن کریم نے ہر تحریک میں واضح فرمایا ہے اور اس کو نمایاں جگہ پر رکھا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ اس وقت جو کچھ ہم کر رہے ہیں ہم سے پہلے بہت قوموں کے سردار کرچکے ہیں اور پھر ہمارا بھی انجام وہی ہوگا جو ہم سے پہلوں کا ہوچکا لیکن بہت ہی کم لوگ ہوئے جنہوں نے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی اور ہر قوم کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو پہلی کے ساتھ ہوچکا تھا۔
Top