Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 84
وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے بارش برسائی عَلَيْهِمْ : ان پر مَّطَرًا : ایک بارش فَانْظُرْ : پس دیکھو كَيْفَ : کیسا ہوا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُجْرِمِيْنَ : مجرمین
(پھر ایسا ہوا کہ) ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا ، سو دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیا ہوا ؟
لوط (علیہ السلام) کی قوم کا وہ عذاب جس میں وہ اس کائنات ہستی سے مٹا دئیے گئے : 95: ” ہم نے ان پر پتھروں کا مینہ برسایا “ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بادل نے بارش کے پانی کی بجائے پتھروں کی بار ش برسائی بلکہ اس سے بھی وہ باد طوفانی مراد ہے جس کو ہماری زبان میں تیز و تند ہوا کہتے ہیں جس سے پہاڑی علاقوں کے سنگریزے اڑ اڑ کر پڑتے ہیں اور ریت کے ٹیلوں کی طرح ٹیلے لگ جاتے ہیں۔ قوم لوط (علیہ السلام) پر اس طوفانی ہوا کا عذاب آیا تھا جو صحرائوں سے اٹھی تھی اور قافلوں کے قافلے اور بستیوں کی بستیاں اس کی لپیٹ میں آگئی تھیں اس طرح مسلسل چلنے والی اس تیز آندھی نے پوری قوم کی قوم کو اپنے نرغے میں اس طرح لیا کہ اس پورے علاقے کو پہلے تہس و نہس کیا اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور پھر زمین پر اتنا زبردست زلزلہ آیا کہ اس سے زمین شق ہو کر رہ گئی اور ان بستیوں کی جگہ کو اس طرح نیچے دبا دیا گیا کہ گویا یہاں کبھی وہ لوگ بسے ہی نہ تھے اور اس کو قرآن کریم نے ” عالیھا سافلھا “ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا۔ یہ عذاب ابتدائے شب سے شروع ہوا اس وقت اللہ کے حکم سے لوط (علیہ السلام) اپنے لوگوں کو سدوم سے نکال کرلے گئے تھے سوائے اپنی اہلیہ کے کہ وہ وہاں ہی رہ گئیں اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئیں اور آخر شب تک ان کا قصہ تمام کردیا گیا۔ ان آیات کا خلاصہ یہ نکلا کہ قوم لوط پر اللہ تعالیٰ نے سنگریزے برسانے والی آندھی کا عذاب بھیجا جس نے ان کو اور ان کے مکانوں کو ڈھانک لیا اور اگر اس کے ساتھ تورات کا بیان بھی ملا دیا جائے تو اس پر اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ ان پر بجلی اور کڑک کا عذاب بھی آیا جیسا کہ اوپر ذکر کردیا گیا ہے۔ لوط (علیہ السلام) کے واقعہ کی تفصیلات بھی انشاء اللہ العزیز مناسب جگہ پر بیان کی جائیں گی اس جگہ مختصر الفاظ میں آیات کے تحت جو ذکر آیا وہ کردیا گیا اور اس کے آگے شعیب (علیہ السلام) کا تذکرہ بیان ہوا چاہتا ہے۔
Top