Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ ہوتا کہ اَهْلَ الْقُرٰٓي : بستیوں والے اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَفَتَحْنَا : تو البتہ ہم کھول دیتے عَلَيْهِمْ : ان پر بَرَكٰتٍ : برکتیں مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلٰكِنْ : اور لیکن كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا فَاَخَذْنٰهُمْ : تو ہم نے انہیں پکڑا بِمَا : اس کے نتیجہ میں كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے
اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا
کاش کہ یہ لوگ ایمان لاتے اور انعامات الٰہی دنیا و آخر میں حاصل کرتے : 107: یہ گزشتہ قوموں پر اظہار افسوس ہو رہا ہے کہ کاش ! یہ لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں کرتا کہ مہلت پر مہلت دینے کے بعد پھر ان کو عذاب کی نذر کردیتا۔ اگر وہ اچھے کام کرتے اور بروں سے باز آجاتے تو ان کے لئے آسمان و زمین دونوں طرف سے اپنی بےپایاں برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ اس سے دو حقیقتیں واضح ہوگئیں ایک یہ کہ کسی قوم کی ڈھیل کے طور پر اسباب و مال کی جو فراوانی حاصل ہوتی ہے وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت نہیں ہوتی بلکہ اس کی نوعیت مریض کے مرض الموت میں پہنچ کر مرض کے چھوڑ دینے کی سی ہوتی ہے کہ لوگ آرام محسوس کرتے ہیں لیکن مریض کے لئے ایک آخری ہچکی کی کسر باقی رہ جاتی ہے جو مریض کا خاتمہ کر کے رکھ دیتی ہے یا جس طرح شمع بجھنے سے پہلے ایک مرتبہ بھڑکتی ہے پھر بجھ جاتی ہے اسی طرح یہ قوم بھی آخری بار بھڑک کر بجھ جاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں۔ اس جگہ قارئین ” عروہ “ ذرا رک جائیں اور اپنے گریبان میں منہ ڈال کر ذرا اپنا محاسبہ کریں۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کون سی ایسی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے۔ سیلابوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پاکستان کے زیادہ تر خشک رہنے والے دریا اپنی قہر آلود موجوں سے ہمارے ہزارہا گائوں کو بہا لے جاتے ہیں۔ سینکڑوں بڑے بڑے شہروں کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں اور جان و مال کے نقصانات کا اندازہ اربوں روپیہ سے زیاد ہوتا ہے۔ ایک عذاب الٰہی ہم پر ایسا ٹوٹا کہ ملک عزیز کے دو ٹکڑے ہوگئے اور آدھا ملک ہم ہاتھ سے دے کر ایسے خوش و خرم نظر آتے ہیں کہ گویا وہ ہمارے جسم کا حصہ ہی نہ تھا حالانکہ وہ ایک ایسا عذاب الٰہی تھا جس سے بڑا کوئی اور عذاب دنیوی لحاظ سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن کیا ہم نے اس سے کچھ عبرت حاصل کی ؟ کسی اپنی اخلاقی کمزوری سے تائب ہوئے ؟ کسی قومی غداری سے دست کش ہوئے جن لوگوں کے ہاتھ میں اس ملک عزیز کی باگ ڈور ہے وہ جب چاہتے ہیں ایک عام استعمال کی چیز کو عنقا کر کردیتے ہیں اور اس طرح مصنوعی قلت پیدا کر کے اس کی قی میں آسمان پر پہنچا دیتے ہیں اور چند ہی روز کے بعد اس چیز کو بازار میں لا کر بیسیوں گنا زائد منافع حاصل کرتے ہیں اور 4 روپے پر بکنے والی چیز کو یک دم 14 پر پہنچانے کے لئے 18 روپے تک پہنچا دیتے ہیں اور پھر مزید چند روز کے بعد اس چیز کو 14 تک لا کر پورے ملک میں شور بربابپا کردیتے ہیں کہ فلاں چیز 4 روپے فی کلو سستی ہوگئی حالانکہ حقیقت میں وہ دس روپے فی کلو مہنگی ہوئی ہے اور برابر یہ صورت حال جاری رکھی گئی ہے۔ ان حالات کے باوجود ہمارے حکمران کیا کہتے ہیں ؟ کہ ملک میں ہم بڑی تیزی کے ساتھ خوشحالی لا رہے ہیں اور ہمارے ملک میں اب ہرچیز کی فراوانی ہے۔ ہاں ! اس سال چونکہ مون سون ہوائیں بڑے زور و شور سے اٹھیں اور پہاڑوں سے آکر ٹکرائیں اور متواتر کئی دنوں تک موسلا دھار بارشیں برستی رہیں جس کی وجہ سے یہ طغیانی آئی اور فلاں فلاں گائوں اور شہر غرق ہوگئے۔ پھر جب ان کی ہمدردی کا جوش اٹھتا ہے تو پھر ان سیلاب زدگان کی امداد کے لئے رقص و سرود کی محفلیں ترتیب دی جاتی ہیں جہاں ننگے ناچ اور فحش گانے ہوتے ہیں اور ان ذلیل حرکات سے جو رقم اکٹھی ہوتی ہے وہ بھی اکثر و بیشتر امدادی پروگرام کے منتظمین کی جیب سے یوں چمٹ کر رہ جاتی ہے کہ پھر کبھی باہر نکلنے کا نام نہیں لیتی۔ آج کی مادہ پرستانہ ذہنیت جس نگاہ سے ان حادثات کو دیکھتی ہے اور پھر اس کے لئے جو علاج تجویز کرتی ہے ان تباہ ہونے والی قوموں کا بھی یہی حال تھا اس کو قرآن کریم نے معجزانہ انداز میں بیان کیا ہے اور بیان مقصد یہ نہیں کہ ہم گزشتہ اقوام کی کج فہمیوں پر طنزیہ قہق ہے لگائیں یا باہمی طور پر اظہار افسوس کریں۔ بلکہ مقصد وحدے یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور ان مہلت کی گھڑیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو اس دردناک انجام سے بچائیں جس سے سابقہ قوموں کو ان کی سر کشیوں کے باعث ہلاک کردیا گیا اور اگر یہی حالت رہی تو ہم بھی اس دنیا سے من حیث القوم نیست و نابودہو کر جائیں گے۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ ۔
Top