Urwatul-Wusqaa - Nooh : 22
وَ مَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًاۚ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے چال لی مَكْرًا : ایک چال كُبَّارًا : بہت بڑی
اور انہوں نے بڑے بڑے فریب کیے
اور انہوں نے بڑے بڑے فریب کئے ہیں 22 ؎ جو لوگ بڑے بڑے مکر اور فریب کرتے ہیں وہ خود کبھی معاشرہ میں چھوٹے لوگ نہیں ہوتے بلکہ یہ وہ مترفین اور سردار لوگ ہوتے ہیں جو قوم کے رئیس کہلاتے ہیں اور یہ لوگ نہ صرف خود ہی گمراہ اور بدکار ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کی بدکرداری ، بداخلاقی اور گمراہی کا باعث بنتے ہیں اس وقت بھی وہ لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے خود نوح (علیہ السلام) کی نافرمانی کی اور دوسروں کو نافرمانی کرنے پر اکسایا اور نوح (علیہ السلام) سے برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور نوح (علیہ السلام) کی تعلیمات سے لوگوں کو روکا۔ قوم کے وڈیروں کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ اگر عوام نے نوح (علیہ السلام) کے دین کو قبول کرلیا تو ان کی چودھراہٹ ختم ہوجائے گی۔ ان کمزوروں اور ضعیفوں کا اگر شعور بیدار ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست ان کا رابطہ قائم ہوگیا تو وہ ان کی غلامی کا جوا اتار کر پھینک دیں گے ، اکثریت تو ان کی پہلے ہی ہے اگر اس اکثریت میں اتحاد پیدا ہوگیا تو ہمارا کیا بنے گا ؟ اس طرح کے خطرات تھے جو ان کو دامن گیر ہوگئے۔ ان کے سدباب کے لئے وہ ہر قسم کے مکر و فریب سے کام لیتے ، ایسی ایسی چالیں چلتے کہ اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی ان کی چالوں میں پھنس جاتے۔ وہ برملا لوگوں کو کہتے کہ نوح کیا ہے ؟ ہماری ہی طرح کا ایک بشر ہے پھر اس پر وحی کیسے نازل ہونا شروع ہوگئی۔ (الاعراف : 93) وہ غریب اور کمزور افراد قوم کو جب نوح (علیہ السلام) کا تابع اور پیرو دیکھتے تو مغرورانہ انداز میں حقارت سے کہتے کہ ” ہم ان کی طرح نہیں ہیں کہ تیرے تابع فرمان بن جائیں اور تجھ کو اپنا مقتدا مان لیں “ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزور اور پست لوگ نوح کے اندھے مقلد ہیں نہ تو یہ ذی رائے ہیں کہ ہماری طرح جانچ پرکھ پر کسی رائے سے کام لے سکیں اور نہ ہی یہ لوگ ذی شعور ہیں کہ حقیقت حال کو سمجھ لیتے اور اگر وہ کبھی نوح (علیہ السلام) کی طرف توجہ بھی دیتے تو ان سے اصرار کرتے کہ پہلے وہ ان پست اور غریب افراد قوم کو اپنے پاس سے نکال دے تب ہی تیری بات سنیں گے کیونکہ ہم ان سے گھن کھاتے ہیں اور ان کے ساتھ برابر برابر ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے۔
Top