Urwatul-Wusqaa - Nooh : 23
وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَذَرُنَّ : نہ تم چھوڑو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے ا لہوں کو وَلَا : اور نہ تَذَرُنَّ : تم چھوڑو وَدًّا : ود کو وَّلَا سُوَاعًا : اور نہ سواع کو وَّلَا يَغُوْثَ : اور نہ یغوث کو وَيَعُوْقَ : اور نہ یعوق کو وَنَسْرًا : اور نہ نسر کو
اور انہوں نے کہا کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور (خصوصاً ) ” ود “ کو ” سواع “ ، ” یغوث “ ، ” یعوق “ اور ” نسر “ کو (بالکل) نہ چھوڑنا
انہوں نے آپس میں کہا کہ تم نوح (علیہ السلام) کی خاطر اپنے معبودوں کو مت چھوڑو 23 ؎ نوح (علیہ السلام) نے انتہائی کوشش کی کہ یہ بدبخت قوم سمجھ جائے اور رحمت الٰہی کی آغوش میں آجائے مگر قوم نے نوح (علیہ السلام) کی ایک نہ مانی اور جس قدر نوح (علیہ السلام) کی طرف سے تبلیغ حق میں جدوجہد ہوئی اسی قدر قوم کی جانب سے بغض وعناد میں سرگرمی کا اظہار ہوا اور ایذاء رسانی اور تکلیف دہی کے لئے انہوں نے تمام وسائل کا استعمال کیا اور قوم کے وڈیروں نے اپنے عوام کو صاف صاف کہہ دیا کہ تم لوگ کسی طرح ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر جیسے بتوں کی پرستش کو نہ چھوڑو۔ اس طرح انہوں نے قوم کے لوگوں کو ان پنج تن پاک کے نظریہ کو پختہ کرنے کی کوشش کی تاکہ عوام اس جال میں پھنسے رہیں گے اور ان کو سلام پیش کرنے کی عادت رہے گی۔ یہ اسی طرح سجدے اور سلام کرتے رہیں گے تو ان کی اس عادت سے قوم کے وڈیروں کا بھرم بھی قائم رہے گا۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر نوح (علیہ السلام) کے عہد کے پانچ بڑے بزرگ تھے جن کی پرستش بڑی دھوم دھام سے کی جاتی تھی۔ نوح (علیہ السلام) نے صدیوں اپنی قوم کو سمجھایا کہ یہ بت اور جن بزرگوں کے یہ بت تم نے بنا رکھے ہیں وہ تو مخلوق تھے اور مخلوق کیونکر خدا بن سکتے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا۔ اس کا تفصیلی ذکر آپ پہلے بھی بہت سے مقامات پر پڑھ چکے ہیں اور اس جگہ بھی پڑھ رہے ہیں۔ اس جگہ ہم کو بتانا ہے کہ ان بتوں کی حقیقت کیا تھی ؟ عقل انسانی نے کیوں انہیں معبود یقین کرلیا ؟ صنم پرستی کا رواج اہل تحقیق کے نزدیک دو طریقوں سے پیدا ہوا۔ پہلا طریقہ تو صائبین نے اختیار کیا ان کا اعتقاد تھا کہ اجرام سماوی یعنی سورج ، ستارے ، چاند بھی جاندار اور ذی روح ہیں۔ ان کا تعلق اس عالم دنیا سے بھی ہے اور اسی تعلق کی بناء پر یہاں سارے تغیرات مثلاً ولادت و موت ، صحت و بیماری ، فتح و شکست ، عزت و ذلت وغیرہ رو پذیر ہوتے ہیں۔ جب کہ ان کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ ہوگیا تو وہ ان کی عبادت کی طرف راغب ہوئے لیکن یہ اجرام ان کی رسائی سے بالا تھے ان میں سے بیشتر ان کی آنکھوں سے اوجھل تھے انہوں نے ان کے ناموں پر بت بنا کر سامنے رکھ لئے تاکہ ان کے ذکر و تصور کی وہاں تک رسائی ہو سکے چناچہ اس طرح بت معرض وجود میں آئے اور پھر ان کی عبادت شروع ہوگئی۔ مذاہب باطلہ میں سے سب سے قدیم مذہب انہیں صائبین کا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پانچ بت جن کی پرستش نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوتی تھی بعض ستاروں کے نام ہوں اور ان کے ناموں پر یہ اصنا تراشے گئے ہوں۔ نسر دو ستاروں کا نام ہے ایک کو نسر الواقع اور دوسرے کو النسر الطائر کہتے ہیں۔ اشوریین جو نوح (علیہ السلام) کے بعد آئے ان کے ایک معبود کا نام نسروخ یعنی نسر عظیم تھا۔ اس کا ایک ہیکل ان کے دارالحکومت نینوا میں تھا ، جس کی وہ پوجا کرتے تھے۔ اصنام پرستی کی دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب ان میں بعض ایسے لوگ پائے جاتے جو کہانت ، شجاعت ، قوت ، علم اور اخلاق حسنہ میں عام لوگوں کی سطح سے بہت اونچے ہوتے تو بالکل اس طرح جس طرح عام لوگوں سے اولیاء اللہ کا مقام ہمارے ہاں بھی اونچا تصور ہوتا ہے۔ عوام اس غلطی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان میں روح الٰہی نفوذ کئے ہوئے ہے اس لئے ان سے یہ مافوق البشر اعمال صادر ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے مرنے کے بعد ان کے مجسمے تراش لیتے اور ان کی عبادت کرنے لگتے۔ اب ہمارے ہاں فرق یہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے لئے مجسمے نہیں تراشتے بلکہ قبریں بناتے اور ان قبروں پر قت بے اور عمارات بناتے ہیں جن کو ہمارے ہاں مقبرے اور روضے کا نام دیا جاتا ہے علاوہ ازیں کوئی فرق نہیں ہے اور اس طرح یہ بھی کہ ہمارے جتنے بڑے بزرگ مانے اور تصور کئے جاتے ہیں ان کے مقبرے اور روضے بھی اتنے ہی بڑے بنتے ہیں اور باقی سب کچھ جو اس وقت کے لوگ بتوں کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے ہم ان مقبروں اور روضوں سے رکھتے ہیں اور اس طرح یہ بھی کہ ہم ان کا نام تو لیتے ہیں لیکن اپنا نام لینا ہم کو پسند نہیں ہے۔ بعض کتب تفاسیر میں ایسی روایات بھی مذکور ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کے پانچ بیٹے تھے ، ود ، سواع وغیرہ بہت پارسا اور عبادت گزار ، جب یہ انتقال کر گئے تو لوگوں پر ان کی جدائی بڑی شاق گزری ، انہیں ان کی موت کا از حد صدمہ پہنچا کیونکہ یہ لوگ انہیں اللہ تعالیٰ کی یاد اور نیکی کی دعوت دیتے تھے اور خود بھی سراپا نیکی و طہارت تھے۔ ان کے نورانی چہروں کو دیکھ کر اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر انہیں اللہ کی یاد آتی تھی چناچہ کسی کے مشورہ سے جس کے متعلق تحریر ہے کہ یہ مشورہ دینے والا ابلیس تھا جو انسانی شکل و صورت میں ان کے پاس آیا تھا اس نے ان کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کی شبیہوں کو دیکھ کر دلوں کو سکون ملے اور اللہ تعالیٰ کی یاد کا جذبہ کمزور نہ ہو پائے۔ کئی نسلیں تو اسی حالت پر گزریں لیکن جب کافی عرصہ گزر گیا تو بعد میں آنے والی نسلوں نے رفتہ رفتہ اصل مقصد کو بھلا دیا اور شیاطین جن و انس کے اغوا کرنے پر انہیں اپنا معبود سمجھ لیا اور ان کی عبادت شروع کردی۔ نوح (علیہ السلام) نے ان کو بہت سمجھایا لیکن وہ باز نہ آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا غضب طوفان کی صورت میں نمودار ہوا اور انہیں ان کے بتوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا۔ لیکن باقی رہنے والوں نے جب بھی ہوش سنبھالی تو وہی ماجرا شروع ہوگیا۔ یہ اس وقت کی حالت تھی جس کا تذکرہ آج تک ہماری کتب تفسیر ، سیر اور تاریخ میں موجود ہے لیکن جب ہم اس کا تقابل اپنے زمانے کے لوگوں سے کرتے ہیں تو ہم کو حکومت کے ایوانوں کے مکینوں سے لے کر خس و خاشاک کی جھونپڑیوں میں بسنے والوں تک سب اسی طرح کی پرستش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاں ! اگر کوئی فرق ہے تو وہ محض اس قدر ہے کہ ان کے ہاں مجسمے اور بت ہوتے تھے ہمارے ہاں مقبرے اور روضے ہیں۔ پھر جب ہم ان کا ذکر کرتے ہیں تو لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ بھلا یہ بھی کوئی تفسیر ہے۔ اگر ہے تو اس کو تفسیر بالرائے کہتے ہیں اور ایسی تفسیر بیان کرنے والوں کے لئے تو سیدھا جہنم ہے اور ان کو اٹھا کر جہنم رسید کردیا جائے گا اور ان کی تفسیر کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جہنم رسید کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ان فتویٰ لگانے والوں کا نہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہم پوری توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہم کو اس طرح کی تفسیر کے باعث دوزخ سے بچائے گا اور ہمارے گناہوں سے درگزر فرماتے ہوئے ہم کو بخش دے گا لیکن ہم فتویٰ نویسوں کے متعلق کچھ نہیں کہتے بلکہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کرتے ہیں۔ ہمیں مطالعہ ہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمرو بن لحی بن قمو تھا۔ یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا اس نے بہت طویل عمر پائی ، کعبہ کی تولیت تقریباً پانچ سو سال تک اس کے خاندان میں رہی اور اس نے اور اس کے خاندان نے بت پرستی کو رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں شروع کردیں جس سے کعبۃ اللہ جس کو ابراہیم خلیل اللہ نے اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا اس بدبخت کے زمانے میں بت خانہ بنا دیا گیا۔ عرب کے مختلف قبائل کے ہاں جو بت تھے ان ہی میں جن بتوں کو بڑی شہرت اور ناموری حاصل تھی وہ پانچ بت ہی تھے جن کے نام وہی نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بتوں کے تھے یعنی ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر۔ چناچہ بنی کلب کے بت کا نام ود تھا جس کا مندر کہیں یا مقبرہ دومۃ الجندل میں تھا۔ قریش کا بھی ایک بت تھا جس کو وہ ود کہا کرتے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ وہی بنی کلب والا بت ہو اور یہ اس کا تلفظ ودوائو مضموم سے کرتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا بت ہو اور اس کے مقابلہ کے لئے انہوں نے بنایا ہو۔ سواع یہ بھی ایک بت کا نام تھا جو پہلے ہذیل کے پاس تھا اور ان سے منتقل ہو کر قبیلہ ہمدان کے پاس آیا اور وہ رباط کے مقام پر نصب تھا۔ لوگ دور دراز سے اس کا حج کرنے کے لئے آتے تھے اور آج کل ہمارے ہاں بزرگوں کے مقبروں پر بھی حج ادا کرنے کی رسم چل نکلی ہے ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یغوث بنی سواد کا بت تھا ، ان کے پاس سے وہ بنی عطیف کے پاس آیا اور اس کا استھان ملک سبا میں تھا۔ یعوق بنی کنانہ کا بت تھا اور نسر حمیر کے قبیلہ کی ایک شاخ آل ذی الکلاع کا معبود تھا۔ ان کے بارے میں یہ بھی تصریح ہے کہ ان سب کی شکلیں انسانی نہ تھیں بلکہ مختلف تھیں۔ ود کا بت قوی ہیکل مرد کی شکل کا تھا۔ سواع ایک عورت کا مجسمہ تھا ۔ یغوث کی شکل شیر کی تھی۔ یعوق گھوڑے کا ہم شکل تھا اور نسر عقاب کی صورت پر تھا اور سب مختلف دھاتوں کے بنے ہوئے تھے۔ سرسید (رح) نے ان کی وضاحت اور دوسرے عربوں کے بتوں کی تفصیل خطبات احمدیہ میں درج کی ہے اور وہاں سے لوگوں نے دوسری کتب میں بھی ان کو منتقل کیا ہے۔ ہم قارئین سے ایک بار پھر اپیل کریں گے کہ وہ خودخالی الذہن ہو کر اس معاملہ میں غور و فکر کریں اور اپنے ہاں ہونے والے اس شرک سے اس کا تقابل کر کے دیکھیں ، وہ ناموں کے چکر میں نہ پڑیں کیونکہ یہ قوموں کے درمیان بدلتے آئے ہیں اور بدلتے رہیں گے صرف ان اعمال پر نظر رکھیں جو وہاں ادا کئے جاتے ہیں ، تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں کا شرک ان کے اس شرک سے بہت آگے بڑھ چکا ہے کیونکہ ہمارے حکمران ، سیاسی لیڈر ، مذہبی راہنما اور دوسرے سارے وڈیروں کی اکثریت براہ راست اس شرک میں ملوث ہے اور چونکہ وڈیروں کے پاس مالی سہولتیں زیادہ ہوتی ہیں اور حکومت کے ایوانوں میں بسنے والوں کے پاس تو خزانہ ہے وہ اس کا منہ ان مقاصد کے لئے کھول دیتے ہیں جس سے ان کے کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ مختصر یہ کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے وڈیروں نے عوام کو اس طرح حکم دیا کہ اے لوگو ! تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو اور خصوصاً ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر کو بالکل نہ چھوڑو اور اس طرح انہوں نے اپنا سارا زور صرف کردیا۔
Top