بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
ہر انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا
(بیشک آچکا انسان) اول حضرت آدم ( پر ایسا وقت بھی زمانہ میں کہ ) وہ (نہ تھا) انسانیت کے عنوان سے (کچھ قابل تذکرہ) اور کوئی انسان ہونے کے ساتھ انہیں یاد نہ کرتا تھا اور وہ روح پھونکنے کے قبل چالیس برس تک مکہ اور طائف کے درمیان پڑے رہے کوئی انہیں انسان کے نام سے یاد نہ کرتا تھا اور نہ ان کے عناصر کا تذکرہ ہوتا تھا۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ اس کا نام کیا ہے اور اسے پیدا کرنے میں کیا حکمت اور فائدہ ہے۔ اور اس مطلب کی بھی خبر نہ تھی کہ قدرت کاملہ والا ایسا آئینہ بناتا ہے کہ جو ان شعاعوں کا مظہر ہو جو مفاتیح الغیب میں ہیں ، اور خلافت کبریا کے مرتبہ کے لائق ہو۔ اور وہ عین مقصود ذات اور منتہائے غایت ہو اور سب پوشیدہ باتیں اس کے وجود باوجود سے ظاہر ہوجائیں۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد اولاد آدم جو شکم مادر میں رہنے کی مدت میں لوگوں کے درمیان ذکر و تذکرہ کے قابل نہیں ہوتا ، اور نہ ہی اس کے حالات و اوصاف کے تعلق سے کوئی چرچا ہوتا ہے۔ بعض نے پہلے لفظ انسان سے آدم اور دوسرے سے آپ کی اولاد مراد لی ہے ، اور یہ اس وقت ہے کہ حین زمانہ طویل اور دراز کے لیے ہو جس کی مقدار معلوم نہ ہو۔ لیکن ہر دونوں میں جنس انسان مراد لینا موزوں اور زیادہ ظاہر ہے ، اس لیے کہ اس سے مقصود ہے انسان کو اس کی تخلیق ظاہر کر کے پندونصیحت کرنا کہ وہ بالکل نہ تھا لیکن اب کیا ہے۔ اس لیے جب سنے گا کہ وہ کوئی شے ہی نہ تھا اور نہ کہیں اس کا ذکر تھا پھر وہ مذکور ہوا اور پیدا ہوا ایک حقیر و خسیس پانی سے ، اس طرح وہ مرنے کے بعد اٹھنے کو بعید نہ سمجھے گا اور نہ ہی اس کا انکار کرسکے گا۔ چنانچہ۔۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔۔۔
Top