Urwatul-Wusqaa - Al-Insaan : 28
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ١ۚ وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں پیدا کیا وَشَدَدْنَآ : اور ہم نے مضبوط کئے اَسْرَهُمْ ۚ : ان کے جوڑ وَاِذَا شِئْنَا : اور جب ہم چاہیں بَدَّلْنَآ : ہم بدل دیں اَمْثَالَهُمْ : ان جیسے لوگ تَبْدِيْلًا : بدل کر
ہم نے ان کو پیدا کیا اور ان کے جوڑو بند مضبوط کیے اور جب ہم چاہیں ان جیسے لوگ ان کی جگہ بدل دیں
(ہم نے پیدا فرمایا انہیں اور مضبوط کیا ان کے جوڑ بند کو) اس کے علاوہ ان کو دنیا میں زندہ رہنے کے تمام اسباب عطا کیے۔ سو اگر وہ ان دنیاوی نعمتوں سے محبت کرتے ہیں تو اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں کے عطا کرنے والے سے محبت کریں ، اس کا شکر ادا کریں ، اور اس کی طاعت عبادت کریں۔۔ نیز۔۔ ان کو اس سے ڈرنا بھی چاہیے کہ جو ان نعمتوں کو عطا کرتا ہے وہ ان نعمتوں کو چھین بھی سکتا ہے ، تو ان نعمتوں کے زائل ہوجانے کے خوف کا بھی یہ تقاضہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں اور اس کی عبادت کریں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اول تو ان لوگوں کو آخرت کی دائمی نعمتوں سے محبت کرنی چاہیے اور ان نعمتوں کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی اطاعت اور عبادت کرنی چاہیے۔ اور اگر وہ دنیا کی جلد ملنے والی عارضی نعمتوں سے محبت کرتے ہیں تو ان نعمتوں کے زوال کے خطرہ سے بچنے کے لیے اور ان نعمتوں کی بقا کے لیے اور ان نعمتوں کے پیدا کرنے اور عطا کرنے والے کا شکر ادا کرنے کے لیے بھی ، ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا چاہیے اور اس کی اطاعت اور عبادت کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ وہی عبادت کا مستحق ، واحد حقیقی اور قادر مطلق ہے۔ چنانچہ۔۔۔ اس کا ارشاد ۔۔۔ (اور) فرمان ہے کہ ہماری قدرت کا حال یہ ہے کہ (جب بھی چاہتے ہم ) تو (بدل دیتے ان جیسوں کو خوب) جس کی ایک شکل یہ ہے کہ انہیں دنیا میں مار ڈالیں اور دوسرے عالم میں اسی صورت اور ہیئت کے مانند پھیر لائیں۔ یا۔۔ ان کو ہم ہلاک کردیں اور ان کے سوا فرمانبردار بندے پیدا کردیں۔
Top