Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ، اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سن رہے ہو
مسلمانوں سے خطاب کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو : 29: غزوہ بدر کا واقعہ جس کی تفصیلات اس جگہ ذکر کی جارہی ہیں اہل اسلام اور کفار دونوں کے لئے عبرت و موغطت کے بہت سے اسباق اپنے اندر رکھتا ہے جیسا کہ پیچھے بیان فرمایا کہ کفار و مشرکین کے پاس ساز و سامان اور افرادی قوت کی بہتات تھی لیکن اس کے باوجود جو انہوں نے شکست کھائی تو ان کی شکست کا اصل سبب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت تھی۔ ظاہر ہے کہ اس بیان میں ان لوگوں کے لئے ایک تازیانہ عبرت ہے جو زمین و آسمان کے خالق ومالک کی قدرت کاملہ اور غیبی قوت سے قطع نظر کر کے صرف مادی قوتوں پر بھروسہ کرتے ہیں یا اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود اس کی امداد و نصرت کی غلط آرزوؤں سے اپنے نفس کو فریب دیتے ہیں۔ آیت زیر نظر میں اس مسئلہ کا دوسرا رخ مسلمانوں کو خطاب کر کے بیان فرمایا کہ اے مسلمانو ! باوجود قلت تعداد اور بےسرو سامانی کے یہ فتح عظیم صرف اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد سے تم کو حاصل ہوئی ہے اور یہ نصرت و امداد بےنتیجہ ہے تمہاری اطاعت و فرمانبرداری کا اس لئے اس اطاعت و فرمانبرداری پر مضبوطی سے قائم رہو اور پھر تاکید مزید کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ” جب تم حق کو سن رہے ہو تو اس سے کسی حال میں بھی روگردانی نہ کرو۔ اس سن لینے کا مطلب حق بات کو سن لینا ہے اور پھر سن لینے کے بھی چار درجات ہیں ایک یہ کہ سن لینا ایسا ہی ہو جیسے ہر حیوان کسی چیز کو سنتا ہے اور پھر سنی ان سنی کردیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ کانوں سے سن لیا اور اس کو سمجھ بھی لیا لیکن دل نے اس کو قبول نہ کیا پھر جب دل ہی نے اس کو قبول نہ کیا تو پھر اس کے مطابق عمل کیا کرے گا تیسری یہ کہ بات سن بھی لی اور سمجھ بھی لی اور اس پر اعتقاد بھی رکھا اور اس کو سچ بھی جانا لیکن اس سے آگے نہ بڑھا چوتھی یہ کہ بات کو اچھی طرح سن لیا ، سمجھ لیا اس پر اعتقاد بھی رکھا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا۔ ظاہر ہے کہ پہلی تینوں طرح کا سننا کا سننا ہوا ؟ کچھ بھی نہیں اس لئے سننا صرف اس چوتھی بات کو کہتے ہیں اور مومنین و کاملین کے سننے کا یہی مقصد ہے اور اس بات کی اس جگہ تلقین کی جارہی ہے کہ جب تم صدائے حق کو بگوش ہوش سن رہے ہو تو تمہارا سننا اس وقت تک صحیح ہوگا جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرو گے ورنہ تمہارے سننے کی کوئی قیمت نہ ہوگی اور نہ ایسا سننا کبھی مسلمانوں کا سننا قرار دیا جاسکتا ہے۔ حق کا سننا وہی سننا ہوگا اگر تمہارا عمل بھی اس کے مطابق ہوگا۔
Top