Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
اور دیکھو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کہا تھا ہم نے سنا اور واقعہ یہ تھا کہ وہ سنتے نہ تھے
ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے سنی بات کو ان سنی کردیا : 30: سننے کا دوسرا درجہ جس کا ذکر اوپر گزر چکا کہ سن بھی لیا اور پھر اس کو سمجھ بھی لیا لیکن اعتقاد میں وہ بات نہ آئی تو جب اعتقاد و اعتماد ہی میں ایک بات نہ آئے تو ظاہر ہے کہ یہ سننا مسلمانوں کا سننا تو کسی حال میں نہیں ہو سکتا ہاں ! اس کو منافقوں کا سننا کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم کو سنتے بھی ہیں ، سمجھتے بھی ہیں لیکن ان کا اعتقاد و عمل کا دعویٰ سچا دعویٰ نہیں ہوتا اس طرح گویا وہ سنی کو ان سنی کردیتے ہیں۔ اس لئے زیر نظر آیت میں گویا مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ تم جب حق بات کو سنو تو اس کو ان سنی نہ کردو بلکہ اس پر کامل یقین رکھ کر اس کے مطابق عمل بھی کرو اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا سننا سننا کہلائے گا اور اگر تم نے دو گردانی کی تو تمہارا سننا ہی تمہار لئے وبال جان بن جائے گا۔ اس لئے فرمایا کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جن کا سننا اور نہ سننا تقریباً برابر ہے بلکہ سننا نہ سننے سے بھی بدتر ہے کیونکہ نہ سننے والا سن کر عمل نہ کرنے والے سے ہمیشہ کمتر درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس سے نفاق پیدا ہوتا ہے اور نفاق ایک بیماری ہے اور ایسا روگ ہے جو ایمان کو تقریباً کھا جاتا ہے اور پھر جب ایمان ہی نہ رہا تو کیا باقی رہا ہے اور شریعت نے منافق کو کافر سے بھی بدتر قرار دیا ہے جس کی اصل وجہ فقل یہ ہے کہ وہ سننے اور سمجھنے کے باوجود جب اس کے مطابق عمل نہیں کرتے تو ان کے سننے اور سمجھنے کا آخر فائدہ ؟ اس کی تفصیل دیکھنا ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 75 کو دیکھیں۔ نیز جلد سوم سورة الانعام کی آیت 36 کی تفسیر دیکھ لیں۔
Top