Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 28
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّمَآ : درحقیقت اَمْوَالُكُمْ : تمہارے مال وَاَوْلَادُكُمْ : اور تمہاری اولاد فِتْنَةٌ : بڑی آزمائش وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : پاس اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
اور یاد رکھو تمہارا مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہے اور یہ نہ بھولو کہ اللہ ہی ہے جس کے پاس بہت بڑا اجر ہے
جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد بھی ایک آزمائش ہیں : 39: فتنہ کیا ہے ؟ فتنہ کے معنوں میں بہت وسعت ہے۔ اس لفظ کے معنی امتحان یا آزمائش کے بھی ہیں اور عذاب الٰہی کے بھی اور ایسی چیزوں کو بھی فتنہ کہا جاتا ہے جو عذاب کا سبب بنیں۔ قرآن کریم میں ان تینوں معنوں میں فتنہ کا لفظ بولا گیا ہے اور اس جگہ ان تینوں معنی کی گنجائش موجود ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض اوقات نہیں بلکہ اکثر اوقات مال اور اولاد خود بھی انسان کے لئے دنیا ہی میں وبان جان بن جاتے ہیں اور ان کے سبب انسان معصیت اور غفلت میں مبتلا ہو کر سبب عذاب بن جاتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ مال اور اولاد کے ذریعہ ہمارا امتحان لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں انعامات الٰہی ہیں اور اس میں آزمائش یہ ہے کہ ان سے انسان کا امتحان لیا جائے کہ انسان ان کو حاصل کر کے شکر گزار بن جاتا ہے یا ناشکرا اور نافرمان ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ بھی کہ مال اور اولاد کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرلیا تو یہی مال اور اولاد عذاب بن گئی اور بعض اوقات تو دنیا ہی میں یہ چیزیں انسان کو سخت مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہیں اور دنیا ہی میں وہ مال اور اولاد کو عذاب محسوس کرنے لگتا ہے اور یہ بھی کہ دنیا میں جو مال اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف کمایا گیا یا خرچ کیا گیا وہ مال ہی آخرت میں انسان کے لئے سانپ اور بچھو اور آگ میں داغ دینے کا ذریعہ بن جائے گا جیسا کہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اس وقت یہ دونوں چیزیں یعنی مال اور اولاد ہماری قوم مسلم کے لئے فی الواقعہ فتنہ ہوگئے ہیں اس لئے کہ مسلمانوں نے اس کو غرض زندگی سمجھ لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اس قدر فرض ہے کہ اپنے لئے کچھ مال کمالیں یا جمع کرلیں اور اپنی اولاد کی کچھ فکر کرلیں اور انہیں دونوں کی محبت میں اغراض قومی اور اغراض دینی کی اہمیت کو کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ تعجب ہے کہ اس سبب سے سزا بھی اس مال اور اولاد پر ہی آکر پڑی یعنی مسلمان دوسری قوموں کے مقابلہ میں فلس قوم ہو کر رہ گئے اور ہم خود اور ہماری اولاد دوسروں کی محکوم ہوگئی۔ وہ مال جس کو غرض زندگی سمجھا تھا وہ بھی جاتا رہا اور وہ اولاد بھی ذلیل ہوئی جس کو مد نظر رکھ کر فرائض اعلیٰ کو ترک کردیا تھا۔ گویا ہماری حالت وہ ہوگئی کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کر رہے اور آخر آیت میں فرمایا : وَّ اَنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (رح) 0028 ” یہ بھی سمجھ لو کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل میں مال و اولاد کی محبت سے مغلوب نہ ہوا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ “
Top