Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
وہ وقت یاد کرو جب کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں ، یا جلاوطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ ان کی مخفی تدبیروں کو توڑ رہا تھا اور اللہ بہتر ہے لوگوں کی مخفی تدبیروں کو توڑنے میں
نبی اعظم و آخر ﷺ کے خلاف کفار مکہ کی سازشوں کا ذکر : 41; : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ایک خاص فضل و احسان اور انعام و اکرام کا ذکر فرمایا جو نبی اعظم و آخر ﷺ اور پوری انسانیت پر کیا گیا بشمول ان لوگوں کے جو اس وقت ظلم کر رہے تھے اور وہ ظلم نبی رحمت ﷺ کے قید کرنے ، مکہ سے نکلال باہر کرنے یا قتل کرنے کا مشورہ تھا جو مشورہ طے پایا وہ یہ تھا کہ اب اس کے سوا چارہ نہیں کہ محمد (رسول اللہ ﷺ کو قتل کردیا جائے۔ کیوں ؟ اس لئے اب مکہ سے باہر خصوصاً مدینہ طیبہ کے لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور قریش مکہ کے سرداروں کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اب تک تو اس کا معاملہ صرف مکہ تک محدود تھا جہاں ہر طرح کی قوت و طاقت ہمارے ہاتھ میں تھی اور اب جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا اور بہت سے صحابہ کرام ؓ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو اب ان کا ایک مرکز مدینہ طیبہ قائم ہوگیا جہاں یہ لوگ ہر طح کی قوت ہمارے خلاف جمع کرسکتے ہیں اور اس طرح ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ وہ ہم پر حملہ آور ہوجائیں۔ ایسے خیالات نے جب سرداران قریش میں جنم لیا تو انجام کار ایک روز وہ ایک خاص مقام پر جمع ہوئے جس کو انہیں کی زبان میں ” دارالندوہ “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یہ جگہ مسجد حرام کے بالکل متصل تھی اور دراصل یہ قصی بن کلاب کا مکان تھا جو قومی صلاح و مشورہ کے لئے مختص کرلیا گیا تھا اور پھر زمانہ اسلام میں اس مقام کو مسجد حرام میں داخل کرلیا گیا کچھ محقق مورخین کے بیان کے مطابق یہ وہی جگہ ہے جہاں فی زمانا باب الزیارات واقعہ ہے یہ وہی جگہ تھی۔ اسی اجتماعی ریز و لیوشن میں جو پاس ہوا وہ یہی تھا کہ محمد ( رسول اللہ ﷺ کا سر قلم کردیا جائے اور اس میں قریش مکہ کے سارے خاندانوں کے سربراہ شامل ہوں تاکہ یہ کسی ایک خاندان کا مسئلہ نہ رہے کہ اس سے آگے پھر قتل و غارت شروع ہوجائے اس اجتماع خاص میں عمرو بن ہشام ( ابو جہل) نصر بن حارث ، عتبہ ، امیہ بن خلف اور ابو سفیان وغیرہ سب کے سب شامل تھے اور اس مجلس کی پوری داستان بہت لمبی ہے جس کو اس جگہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مشورہ نہایت خفیہ طریقہ سے کیا گیا لیکن ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ رسول اللہ ﷺ کا واسطہ کس ذات کے ساتھ وابستہ ہے وہ تو اس کو ایک دنیوی تحریک ہی سمجھتے تھے۔ بہر حال ان کے اس مشورہ کی پوری رپورٹ اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ ﷺ تک پہنچا دی اور حکم دیا کہ آج آپ ﷺ اپنے بستر پر آرام نہ کریں بلکہ رات ہی رات کو اس جگہ سے نکل جائیں اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ دشمن آپ ﷺ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے۔ مشورہ کے مطابق قریشی سرداروں نے نبی اعظم و آخر ﷺ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور رسول اللہ ﷺ بھی اللہ کے حکم سے علی ؓ کو اپنے بستر پر سو جانے کی ہدایت فرما کر اس گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور ان محاصرہ کرنے والوں کی آنکھوں میں مٹی ڈال کر بامر الٰہی بخیر و خوبی نکل گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ آپ بڑے اطمینان و آرام کے ساتھ ابوبکر صدیق ؓ کے گھر پہنچے اور ان کو ساری بات بتائی اور یہ بھی فرمایا کہ اب اللہ کا حکم اس جگہ سے ہجرت کر جانے کا ہے اور اس وقت جانا ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ آپ ﷺ کے ہمراہ نکل کھڑے ہوئے۔ قریش مکہ کی ساری مخفی تدبیروں کو اللہ کی ایک ہی مخفی تدبیر نے ہڑپ کرلیا : 42: زیر نظر آیت میں قریش مکہ کے سرداروں کے اس مشورے کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ دیکھو اے پیغمبر اسلام ! کہ جب کفار مکہ آپ کے خلاف مخفی تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا قتل کردیں یا شہر بدر کردیں لیکن اللہ کس طرح ان کی تدبیروں کو خاک میں ملا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کون ہے جس کی تدبیریں کارگر ہوں ؟ یعنی کوئی نہیں ہے جس کی تدبیریں اللہ کے سامنے چل سکیں اس لئے کہ وہ ذات اقدس سو سنار کی پر ایک لوہار کی لگا کر سارا کام تمام کردیتا ہے۔ فرمایا غور کرو کہ انسان اپنے جہل و غفلت کی سرشاریوں میں سوچتا ہے اور حکمت الٰہی کی مخفی تدبیروں کا فیصلہ کیا ہوتا ہا ؟ جب ہجرت سے پہلے قریش مکہ نے یہ منصوبے باندھے تھے تو کیا ایک لمحہ کے لئے انہیں آنے والے نتائج کا گمان ہو سکتا تھا ؟ مگر کس طرح خود انہی کے ظلم و عداوت نے ان کا سارا سرو سامان کردیا ؟ پھر غور کرو کہ اگر ظلم نہ ہوتات تو ہجرت بھی نہ ہوتی اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو وہ تمام نتائج ظہور میں نہ آتے جو ہجرت سے ظہور میں آئے۔ ایسی ہی صورت حال قانون الٰہی کی مخفی تدبیر ہے جو انسان کے ظلم و فساد کی ساری تدبیریں ملیا میٹ کردیتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک بار پھر غور کرو کہ اس جگہ یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آخر میں اللہ نے جو ارشاد فرمایا کہ وہ بصیغہ مضارع ہے جو حال و استقبال کے معنوں پر دلالت کرتا ہے کہ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ 1ؕ مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ ابھی ایمان کی ایذا رسانی کی تدبیریں کرتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی تدبیروں کو اپنی مخفی تدبیر سے ناکام بناتا رہے گا۔ اس طرح ایک طرف کفار کی دائمی ریشہ دوانیوں کی طرف اشارہ فرمایا اور دوسری طرف یہ یقین دہانی بھی کرادی کہ اگر تم مسلمان رہے تھے تو ان کی ان ریشہ دوانیوں کا سارا وبال بھی انہی پڑ پڑتا رہے گا اور اللہ کی نصرت و امداد ہمیشہ مسلمانوں کا ساتھ دے گی۔
Top