Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور (اے پیغمبر اسلام ! ) جب انہوں نے کہا تھا خدایا ! اگر یہ بات (یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت) تیری جانب سے امر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمیں عذاب دردناک میں مبتلا کر
قریش مکہ جواب پیش کرنے کی بجائے بوکھلا کر بد دعا کرنے لگے اور زد میں خود ہی آگئے : 44: انسان کی یہ بھی فطرت ہے کہ جب وہ کسی بات کا عقل و فکر اور سمجھ سوچ کر جواب نہ دے سکے تو وہ خود اپنی ذات ہی کو گالیاں دینے پر اتر آتا ہے اور برا بھلا کہنا شروع کردیتا ہے۔ یہی بات قریش مکہ نے کی جب ان کو بار بار بلایا گیا اور ان ہی کی کہی ہوئی بات کے مطابق ان سے مطالبہ کیا گیا کہ لاؤ ذرا اپنا سانپ پٹارہ سے باہر بھی نکال کر دکھاؤ تو بو بوکھلا گئے اور کہنے لگے کہ ” خدایا اگر یہ بات (پیغمبر اسلام کی دعوت) تیری جانب سے امر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے یا ہمیں کسی دوسرے دردناک عذاب میں مبتلا کردے۔ “ غور کرو کہ بات کیا تھی اور کیا ہوگئی ؟ یہ کہنے والے معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ سرداران قریش تھے جن میں عمرو بن ہشام ( ابو جہل) جیسے ضادید ، فہر بن کلاب تھے۔ صحیح بخاری میں بھی اس واقع کی تفصیل اسی طرح بیان کی گئی ہے۔
Top