Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 35
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةً١ؕ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھی صَلَاتُهُمْ : ان کی نماز عِنْدَ : نزدیک الْبَيْتِ : خانہ کعبہ اِلَّا : مگر مُكَآءً : سیٹیاں وَّتَصْدِيَةً : اور تالیاں فَذُوْقُوا : پس چکھو الْعَذَابَ : عذاب بِمَا : اس کے بدلے جو كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے تھے
اور بیت اللہ میں ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کی سیٹیاں بجائیں اور تالیاں پیٹیں ، تو دیکھو جیسے کچھ کفر کرتے رہے ہو اب (اس کی پاداش میں) عذاب کا مزہ چکھو
ان کی عبادت کیا تھی ؟ بیت اللہ کے پاس تالیاں اور سیٹیاں بجانا : 47: اس آیت نے مکہ والوں کی عبادت گزاری کا سارا قصہ نہ بیان کرنے کے باوجود اس کا سارا نچوڑ نکال کر سامنے رکھ دیا کہ ان کی عبادت کیا تھی ؟ ناچنا ، گانا ، تالیاں اور سیٹیاں بجانا۔ گویا کفر و شرک کی گندگی تو ان میں پہلے ہی موجود تھی لیکن ان کے افعال و اعمال ایسے ہوچکے تھے کہ وہ عام انسانی سطح سے بھی نیچے گر گئے تھے حتیٰ کہ یہ لوگ اپنے جس طریق عبادت کا نام نماز رکھتے تھے وہ وہی تھا جس کو آج کی زبان میں ” چوکی بھرنے “ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ بھی بتادیا کہ مشرک قومیں ہمیشہ سے یہ کرتی آئی ہیں اور آج بھی کر رہی ہیں کہ ان کی عبادت ناچنے گانے ، دھمال مارنے ، کمر میں ٹل باندھنے اور گلے میں گھنگرو لٹکانے کے ساتھ تالیاں بجانے اور سیٹیاں چلانے کے سوا کچھ نہ تھی اور نہ اس وقت اس کے سوا کچھ ہے۔ آج اگر ذرا غور سے آپ دیکھیں گے تو ان حانقاہوں ، درباروں میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ڈھول پیٹے جاتے ہیں ، ناچنے اور گانے والے اور ناچنے گانے والیاں طرح طرح کے ناچ گانے سناتی اور دکھاتی ہیں اور پھر یہ سارے قوال ، بھانڈ اور مراسی جو کچھ کرتے ہیں آج بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور پھر ان کے یہ سارے کام عین عبادت تسلیں ہوتے ہیں فرق ہے تو یہ کہ وہ مشرکین مکہ تھے اور یہ مخلص مسلمان پاک و ہند ہیں اور جن جگہوں پر یہ سب کچھ کیا جاتا ہے وہ اولیائے کرام (رح) کے مزارات سے معروف ہیں اور ابھی جو کچھ اس سے آگے بڑھ کر بدکاریاں اور بےحیائیاں یہاں ہوتی ہیں ان کا ذکر آپ آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔ ایک بار پھر غور کرو کہ وہ یعنی مشرکین مکہ کیا کرتے تھے اور آج ہم کیا کر رہے ہیں۔
Top