Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 37
لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰى بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لِيَمِيْزَ : تاکہ جدا کردے اللّٰهُ : اللہ الْخَبِيْثَ : گندا مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَيَجْعَلَ : اور رکھے الْخَبِيْثَ : گندا بَعْضَهٗ : اس کے ایک عَلٰي : پر بَعْضٍ : دوسرے فَيَرْكُمَهٗ : پھر ڈھیر کردے جَمِيْعًا : سب فَيَجْعَلَهٗ : پھر ڈال دے اس کو فِيْ : میں جَهَنَّمَ : جہنم اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
اور یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے اور جو ناپاک ہیں ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا دے پھر سب کو (انہیں تباہ حالیوں میں) اکٹھا کر دے پھر اس کو دوزخ کے حوالے کردے یہی لوگ ہیں یکسر تباہ ہوجانے والے
نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ پاک کو ناپاک سے الگ کردیا جائے گا : 50: گزشتہ آیات کریمات کا نتیجہ زیر نظر آیت میں بیان فرمادیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے جو اموال کفار نے اسلام کے خلاف استعمال کئے اور پھر ان کو حسرت و ندامت ہوئی اور وہ ذلیل و خوار ہوئے اس کا فائدہ کیا رہا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ فرمایا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اللہ نے ناپاک اور پاک کو الگ الگ کردیا اس طرح خبیث و طیب کا فرق بھی واضح ہوگیا اور خود انسانوں میں اس کی تقسیم سے دونوں طرح کے انسان الگ الگ کر کے رکھ دیئے گئے اور یہ تقسیم قیامت کو واضح دکھائی دے گی۔ فرمایا پھر خبیث کو ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ڈھیر کردیا جائے گا اور پھر اس پورے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ فیرکمہ کارکم ہے اور اس کے معنی کسی شے کو ایک دوسرے پر تہ بہ تہ رکھ دینے کے ہیں جس سے ایک ڈھیر نظر آنے لگے جس طرح کوڑے کرکٹ کو جلانا ہو تو پہلے اس کا ڈھیر لگایا جاتا ہے اور ادھر ادھر چن کر اور اکھٹا کر کے پھر اس پر آگ لگا دی جاتی ہے اور اس طرح تہ بہ تہ جمع کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح آگ ایک دم بھڑک اٹھتی ہے جس سے گیلا ، سوکھاسب جل کر راکھ ہوجاتا ہے اور جلنے میں ایک دوسرے کے لئے وہ معاون ثابت ہوتا ہے اور جلانے والے کو بھی پھونکنے کی زحمت گوارا نہیں کرنی پڑتی۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کفار دنیا جس طرح ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی پشت پنا ہی کرتے ہیں اسی طرح جہنم میں بھی ایک دوسرے کو جلانے کے لئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوں گے اور آخر آیت میں فرمایا کہ ” یہی لوگ ہیں جو یکسر تباہ ہوجانے والے ہیں “ اور اصل نامرادی یہی ہے اس لئے کہ دنیا میں ان کا انجام یہ ہوگا کہ یہ اپنے مال برباد کریں گے اور اس پر کف افسوس ملیں گے ، ذلت کے ساتھ شکست کھائیں گے اور آخرت میں یہ ہوگا کہ کوڑے کرکٹ کے انبار کی طرح اکٹھا کر کے جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے اور پرانی ” اروڑی “ کی طرح اندر اندر دھکتے رہیں گے۔
Top