Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 47
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجانا كَالَّذِيْنَ : ان کی طرح جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں بَطَرًا : اتراتے وَّرِئَآءَ : اور دکھاوا النَّاسِ : لوگ وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : سے۔ جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : احاطہ کیے ہوئے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کی نظروں میں نمائش کرتے ہوئے نکلے اور جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں اللہ اس کو گھیرے ہوئے ہے
تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جو ڈینگیں مارتے اور اتراتے ہوئے گھر سے نکلے تھے : 64> : اس آیت میں کفار کے لشکر کی تیاری اور مکہ سے روانگی کی پوری تصویر کھینچ کر رکھ دی اور مسلمانوں کو ہدایت دی کہ اس طرح کرنے والوں کا انجام یہی کچھ ہوتا ہے جو ان کا ہوا۔ تم یاد رکھو ایسی حرکت کبھی نہ کرنا۔ تاریخ وضاحت کرتی ہوئی ہمیں بتاتی ہے کہ کفار کا لشکر جب مکہ سے بدر کی طرف روانہ ہوا تو ان کے ہمارہ ایسی دو شیزائیں بھی تھیں جو گانے بجانے اور ناچنے میں اپنا جواب نہ رکھتی تھیں اور علاوہ ازیں ان کے ساتھ شراب ناب کے بھرے ہوئے مٹکے بھی تھے اور یہ لوگ بڑے طمطراق سے نکلے اور جہاں ڈیرہ ڈالتے ان کی بزم عیش و طرب منعقد ہوتی جس میں بادہ گلفام کے ساغر گردش میں آتے اور ناچ میں گانا ہوتا۔ روایات میں آیا ہے کہ ابو سفیان کا قافلہ تجارت جب مدینہ کی حدود سے بخیریت گزر گیا تو ابو سفیان نے اپنا آدمی ابو جہل کے پاس بھیجا کہ ہمارے تجارتی قافلہ کو جو خطرہ لاحق تھا وہ ٹل گیا ہے اب تمہارے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں تم فی الفور واپس آجاؤ اور اس طرح دوسرے قریش کے سرداروں نے بھی اس کو یہ مشورہ دیا لیکن اس نے جواب دیا کہ : ” بخدا ہم محمد ﷺ سے لڑے بغیر ہرگز واپس نہیں جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہم میدان بدر میں پہنچیں وہاں شراب کا دور چلے ، رقص و سرور ہو ، سارا عرب سنے اور ان کے دلوں پر ہمارا رعب ہمیشہ کے لئے جم جائے۔ “ اس کی ان ڈینگوں کا نتیجہ کیا رہا ؟ آپ پیچھے پڑھ آئے۔ وہ زمانہ تو بہت پہلے تھے آج بھی یہ کفر کا لشکر جد ھر رخ کرتا ہے فسق و فجور کا ایک طوفان بدتمیزی امڈ آتا ہے۔ آُ غور کریں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ جاہلیت قدیم و جدید کے مزاج کی یکسانی میں دو ہزار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کچھ بھی فرق نہیں پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جو امریکی افواج اپنے دوسر ملک برطانیہ میں اقامت گزیں رہیں تو ان کی عیش کوشی کی وجہ سے امریکی ایجنسیوں کی خرروں کی مطابق ستر ہزار حرامی بچے پیدا ہوئے۔ (المصری 3ؕ: 54۔ 28) اور اس وقت تو حرام کاری کا لفظ بھی دقیانوسی بن کر رہ گیا ہے۔ پیار و محبت کی ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر میں حرام کاری دب کر کبھی کی حلاک ہوچکی ہے۔ صرف اسلامی ممالک کے متوسط درجہ کے لوگوں کی زبان سے یہ لفظ حرام کاری سننے میں آتا ہے تو ہمارا اوپر کا طبقہ اپنے آقاؤں کی مرضی کے خلاف اس لفظ کو سن کر دقیانوسی لفظ قرار دیتا ہے اور ان کے آقا ان سے محض اس لئے بےزار نظر آتے ہیں کہ یہ لفظ بولنے والوں کی زبان وہ کاٹ کیوں نہیں دیتے۔ فرمایا : ” مسلمانو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے نکلے تھے اور لوگوں کی نظروں میں نمائش کرتے ہوئے۔ جن کا کام اللہ کی راہ سے روکنا تھا۔ “ یعنی ان کا اس طرح نکلنا محض اس وجہ سے تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی سیدھی راہ چلنے سے روک دیں۔ ” اور جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں اللہ ان کو گھیرے ہوئے ہے “ پھر وقت سے ثابت کردیا کہ ان کا اس طرح نکلنا انہی نکلنے والوں کے لئے باعث ذلت ہوا اور وہ باوجود کثرت کے اس ذلت سے پھر نکل نہ سکے اس لئے کہ انہوں نے اپنی اسی ذہنیت پر کبھی سوچنے کی کوشش نہ کی جس کا نتج ہے یہ ہوا کہ وہ روز بروز گرتے ہی گئے۔ اگر تم نے کوئی ایسی حرکت کی تو نتیجہ ایسا ہی نکلے گا جیسا کہ ان کے حق میں نکل چکا۔
Top