Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 56
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
جن لوگوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر انہوں نے اسے توڑا اور ہر مرتبہ عہد کرکے توڑتے ہی رہے اور وہ ڈرتے نہیں
وہ لوگ انسانی اوصاف سے خارج ہیں جو اپنے کسی عہد و پیمان کا لحاظ نہیں رکھتے : 75: گزشتہ آیات میں جن لوگوں کو چارپایوں سے بھی بدتر قرار دیا تھا انہی میں سے ایک قسم کے لوگ وہ بھی ہیں جو اپنے کسی عہد و پیمان کے پابند نہییں۔ وضاحت اس کی اس طرح ہے کہ جب نبی اعظم و آخر ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے تو یہود کے دو گروہ جو مدینہ طیبہ اور مضافات مدینہ میں رہتے تھے انہوں نے اپنی ضرورت کے تحت نبی کریم ﷺ سے کئی معاہدے کئے اور ان کی پوزیشن کچھ اس طرح ہوگئی کہ جب ان کی ضرورت ہوئی آپ ﷺ سے معاہدہ امن کرلیا اور جب مکہ والوں نے ان کو بلایا تو ان کی طرف جھک کر کوئی نہ کوئی شرارت شروع کردی کیونکہ ان کا سردار کعب بن اشرف عمرو بن ہشام یعنی ابو جہل کا دلی دوست تھا اور وہ بھی اپنی قوم قریش کا ایک بہت بڑا سردار اور پیشوا تھا۔ بلاشبہ اسلامی ربایات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ جہاں تک ممکن ہو یہود مدینہ کو کسی نہ کسی معاہدے کے تحت ساتھ لگایا جائے تاکہ وہ مکہ والوں کو مدد نہ پہنچائیں اور ادھر یہود کی اپنی ضرورت بھی بھی یہ تھی۔ اس لئے یہود نے جب بھی خواہش کی نبی کریم ﷺ کو معاہدہ امن کے لئے تیار پایا لیکن یہود نے ایک دو بار نہیں بلکہ جب معاہدہ کیا تو انکو اس کے خلاف کرتے ذرا دیر نہ لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے مسلمانوں کے دونوں سیاسی گروہوں یعنی اوس و خزرج کی آپس میں صلاح کروائی اور دونوں کو اللہ کے حکم سے بھائی بھائی بنا دیا اور ان کی پرانی رقابتوں کا خاتمہ کرایا اور دوسری طرف یہود مدینہ سے بھی معاہدات کئے کیونکہ وہ مدینہ میں مسلمانوں کے سب سے قریبی پڑوسی تھے ان صنمی معاہدوں سے آگے بڑھ کر پھر ایک مفصل عہد کیا جس کو باقاعدہ عہد نامہ کے طور پر لکھا گا اور اس معاہدہ میں سارے یہودی خواہ وہ مدینہ کے ہوں یا مضافات مدینہ کے مل کر ایک معاہدہ طے کیا اور سب نے اس پر دستخط کئے اس معاہدہ کا پورا متن آج بھی ” البدایۃ والنھایۃ “ اور سیرت ابن ہشام میں موجود ہے۔ اس کا سب سے اہم جزو یہ تھا کہ جب بھی کوئی باہمی اختلاف ہوا تو رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ آخری ہوگا اور جو کچھ آپ ﷺ فیصلہ فرمائیں گے وہ سب کو تسلیم کرنا ہوگا اس معاہدہ میں بنو نضیر اور بنو قریظہ کے اپنے قضئے بھی تھے اور مسلمانوں کے ساتھ اونچ نیچ کے فیصلے بھی اور دوسرا اہم جزء اس معائدہ کا یہ تھا کہ یہود مدینہ مسلمانوں کے خلاف کسی دشمنی کو ظاہراً یا طابناً کوئی امدام نہیں دیں گے۔ اس عہد و میثاق کے باوجود ان لوگوں نے غزوہ بدر کے موقع پر عہد کی خلاف ورزی کر کے مشرکین مکہ کو اسلحہ اور سامان جنگ سے مدد پہنچائی لیکن جب غزوہ بدر کا انجام مسلمانوں کے حق میں فتح مبین ثابت ہوا اور کفار مکہ کو ہزیمت و شکست کا سامنا ہوا تو یہ لوگ نبی اعظم و آخر ﷺ کے پاس حاضر ہو کر عذر و معذر تین پیش کرنے لگے کہ ہم سے غلطی ہوئی معاف فرمادیں اور آئندہ کبھی عہد شکنی نہیں کریں گے۔ اس لئے آپ ﷺ نے ان لوگوں سے دوبارہ عہد کی تجدید فرمالی اس جگہ اس بات کا ذکر کیا گیا اور فرمایا کہ ان لوگوں میں کوئی دیانت و امانت نہیں اور ان میں آخرت کا خوف تو مطلق نہیں ہے حالانکہ ان کی زبانیں آخرت کے عذاب کو تسلیم کرتی ہیں کہ معائدہ کی پابندی کرنے والے لوگوں کے اور اللہ تعالیٰ کے مجرم قرار پاتے ہیں اس کے باوجود ان میں ذرا شرم و حیاء نہیں کہ ایک طرف عہد کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کو توڑ دیتے ہیں۔
Top