Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 64
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی حَسْبُكَ : کافی ہے تمہیں اللّٰهُ : اللہ وَمَنِ : اور جو اتَّبَعَكَ : تمہارے پیرو ہیں مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اے پیغمبر اسلام ! اللہ تیرے لیے کفایت کرتا ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں
اے پیغمبر اسلام ! اگر آپ سب کچھ خرچ کردیتے تو بھی ان دلوں کو نہیں جوڑ سکتے تھے : 84: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے دنیا میں کوئی کام انسان کے لئے اس سے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بکھرے ہوئے انسانی دلوں کو ایک رشتہ الفت میں وہ پرو دے اور یہ کام تقریباً نامممکن ہوجاتا ہے جب معاملہ ایسے انسانوں کا ہو جو صدیوں سے باہمی جنگ وجدال کی آب و ہاو کی پرورش پاتے رہے ہوں اور جن کے نفسیاتی سانچوں میں باہمی آمیزش کا کوئی ڈھنگ باقی نہ رہا ہو۔ پیغمبر اسلام ﷺ کا ظہور ایسے ہی لوگوں میں ہوا تھا مگر ابھی ان کی دعوت پر دس بارہ ہی برس گزرے تھے کہ مدینہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جو اس اعتبار سے بالکل ایک نئی قسم کی مخلوق تھی۔ وہ جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے باہمی کینہ و انتقام کے مجسّمے تھے لیکن جونہی مسلمان ہوئے محبت سازگاری کی ایسی پاکی و قدو سیت ابھر آئی کہ ان کا ہر فرد دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان دینے کے لئے مستعد ہوگیا۔ فی الحقیقت یہی وہ تزکیہ اخلاق کا عمل ہے جو ایک پیغمبرانہ عمل تھا اور جو پیغمبر اسلام کی تعلیم و تربیت نے بحکم الٰہی انجام دیا اور یہی وہ اذن الٰہی جس کی طرف زیر نظر آیت میں ذکر کیا گیا۔ اس لئے ارشاد الٰہی ہوا کہ اے پیغمبر اسلام ! دیکھو وہ دل جو نفرت سے بھرے ہوئے تھے ان میں الفت پیدا کردینا اور ایک دوسرا کا جاں نثار بنا دینا کوئی معمولی اور آسان کام نہ تھا۔ دنیا بھر کے خزانے بھی اگر اس مقصد کے حصول کے لئے خرچ کردیئے جاتے تب بھی یہ چاک رفو نہ ہو سکتے تھے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرام ہے کہ اس نے عداوت کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھا دیا اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا یہ صرف اس کا کام ہے جس نے آگ نمرود کو ابراہیم (علیہ السلام) پر گلزار کیا تھا اور وہی ہے جس نے اس ساری بھڑکتی ہوئی آگ کو بھی ٹھنڈا کردیا اور ان دلوں میں آپ کی اتنی محبت رکھ دی کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر آپ پر مرنے کے لئے پروانوں کی طرح تیار ہوگئے۔ وہ غالب آنے والا اور بہت حکیم ہے۔
Top