Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaashiya : 17
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَیْفَ خُلِقَتْٙ
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ نہیں دیکھتے اِلَى الْاِبِلِ : اونٹ کی طرف كَيْفَ : کیسے خُلِقَتْ : پیدا کئے گئے
کیا یہ لوگ اونٹ پر نظر نہیں کرتے کہ وہ (عجیب الخلقت) پیدا کیا گیا ہے
کیا یہ لوگ اونٹ پر نظر نہیں کرتے کہ وہ عجیب الخلقت پیدا کیا گیا 17 ؎ دین فطرت کو سمجھانے کے لیے کہاں سے مثال اٹھائی ہے اور کس رنگ میں اس کو پیش کیا ہے اور اس کو سمجھانے اور طریقہ اختیار کیا ہے جو بہت ہی مؤثر ہے اور پھر ایک گنوار آدمی سے لے کر ایک بڑے سے بڑے فلسفی تک سب کے سب اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں ۔ ذرا غور کرو کہ عرب کا ایک ریگستان ہے کہ جہاں تک نظر پڑتی ہے پھیلا ہوا ہے ایک طرف بڑے عظیم الشان خشک پہاڑوں کا سلسلہ ہے اور اس خشک اور ریتلی وادی میں ایک بدو کھڑا ہے جو اپنے اونٹ سے ابھی اترا ہے۔ وہ تمام دنیا سے منقطع ہے کوئی مخلوق چرند ، پرند انسان اور درخت اور سزہ اس کے سامنے نہیں ہے اور تن تنہا کھڑا ہے ، اس کو کیا نظر آتا ہے ایک طرف اس کا اپنا اونٹ ہے جو اس کے پاس کھڑا ہے ، اوپر نظر اٹھائے تو آسمان ہے جو اس کے سر پر اس کو نظر آتا ہے اور تیسری طرف اگر اس کو نظر آئے تو وہ پہاڑ ہیں جو اس کو ایک پہلو پر نظر آ رہے ہیں اور چوتین کی طرف وہ ریگستان ہے جو دور دور تک پھیلا ہوا ہے وہاں قرآن کریم اس کو دین فطرت سکھاتا ہے اور اس کتاب فطرت ، دین فطرت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے کہ اے انسان دین فطرت یعنی اسلام کا پہلا اصول شفقت علیٰ خلق اللہ ہے جسے اس اونٹ سے سیکھ لے وہ اس طرح کہ اس کی جفا کشی اور ایثار کو دیکھ کہ کس طرح یہ دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اس بوجھ کو اٹھا کر شب و روز چلتا ہے اور نہیں تھکتا ۔ وہ لوگوں کے بوجھ کو لے کر ان بیابانوں میں سے گزرتا ہے جہاں سے کسی جانور اور انسان کا گزر محال ہے جن کا یہ بوجھ اٹھاتا ہے یہ نعمتیں کھاتے ہیں اور یہ کانٹے کھا کر گزارہ کرتا ہے۔ وہ پانی پیتے ہیں لیکن یہ کئی کئی دن بلکہ کئی کئی ہفتے پانی کو دیکھتا تک نہیں اور پھر جن کا بوجھ اس نے اٹھایا ہے وہ اگر چاہیں تو اس پر چھری پھیر دیں اور اس کو اپنی خوراک بنائیں اور اس کی کو ہان سے صاف اور ستھرا پانی نکال کر پئیں تو پی سکتے ہیں کیا اس سے بڑھ کر تجھ کو کہیں جفا کشی اور ایثار کا نمونہ میسر آسکتا ہے۔ پھر کس طرح سینکڑوں اونٹ ایک رسی کے ساتھ بندھے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ قدم بہ قدم چلے جا رہے ہیں کیا دین کا پہلا اصول جو اللہ نے انسان کو سکھانا چاہا ہے اس اونٹ نے اس کی مثال اس کے سامنے پیش کی ہے یا نہیں ؟ اگر کی ہے تو یہ تیری رہنمائی کے لیے کافی نہیں ہے کہ بحمد اللہ انسان ہے اور وہ ایک جانور ہے اگرچہ عظیم ہے لیکن عظیم ہونے کے باوجود اس کے اوصاف بھی عظیم ہیں اور خصوصاً انسانی خدمت کے لیے وہ ایک صحرائی جہاز کا کام کرتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کی مثال کسی دوسرے جانور سے بھی نہیں دی جاسکتی کہ بیٹھتا ہے اور انسان نہایت آرام اور سکون سے اس پر بوجھ لادتا ہے اور منوں بوجھ لاد کر خود بھی سوار ہوجاتا ہے اور صرف زبان سے ہش ہش کی آواز دیتا ہے تو وہ منع سامان کھڑا ہوجاتا ہے اور منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔
Top