Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے ملے جلے کام کیے کچھ اچھے اور کچھ برے تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ ان پر لوٹ آئے اللہ بڑا ہی بخشنے والا بڑا ہی رحمت والا ہے
ملے جلے اعمال والوں پر بھی اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل و کرم کرے گا : 133: ان منافقین میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل تھے جو منافق تو نہ تھے لیکن منافقت کے چکر میں آگئے تھے یا دنیاوی کاروبار نے ان کو کافی حڈ تک سست کردیا تھا اور وہ کاہلی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے اب اس جگہ بیان ان ہی لوگوں کا شروع ہورہا ہے۔ ان میں بھی پھر کچھ ایسے تھے جنہیں ندامت اس درجہ قوی تھی کہ انہوں نے جب آپ ﷺ کی واپسی کی خبر سنی تو اپنے آپ کو مسجد نبوی ﷺ کے ستونوں سے باندھ لیا تھا کہ آپ ﷺ کھولیں گے تو خیر ورنہ اسی طرح ختم ہوجائیں گے اور اس جگہ پہلے ذکر ایسے ہی نادمین تابعین کا شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن میں گناہ کا ملکہ ہی راسخ نہ تھا بلکہ نور استعداد پوری طرح باقی تھا انہی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے اعمال صالح تھے۔ اس لئے کہ اس سے پہلے سارے غزوات میں وہ شریک رہ چکے تھے اس لئے ان کے اچھے اور برے اعمال سب آپس میں ملے جلے ہوئے تھے کچھ اچھے اور کچھ نہ اچھے۔ اس طرح ان کے اعمال میں سستی تو تھی لیکن نفاق مطلق نہیں تھا۔ پیغمبر اسلام ﷺ جب تبوک کے سفر سے واپس آئے تو ان میں سے ہر شخص سچائی کے ساتھ اپنی غفلت پر منفعل ہوا اور کوئی نہ تھا جس کا دل حسرت و ندامت کے زخموں سے چورہ ہو رہا ہو۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی کیونکہ اس کی بخشش و رحمت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا شرط صرف یہ ہے کہ خود ہم اپنے دلوں کا دروازہ اپنے ہاتھوں بند نہ کرلیں۔ نہ پہنچی ضعف سے لب تک دعا ہی ورنہ سدا ٭ در قبول تو اس آرزو میں باز رہا فرمایا انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور ان کا اعتراف دل کا اعتراف ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ ان کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بارے میں اصل کار گناہوں کا سچا اعتراف ہے اور جو سر اعتراف ذنوب میں جھک گیا پھر اس کے لئے محرومی نہیں ہو سکتی۔ ع کہ مستحق کرامت گناہ گا رانند کوئی برہاں و عصیاں وجوہ اس غفور و رحیم رب کریم کو پکار کر تو دیکھے کہ جو اس کی طرف ایک بالشت آتا ہے وہ آگے بڑھ کر کس طرح ایک باع ان کی طرف بڑھتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور گناہوں میں ڈوبنے والا مخلوق ۔ پھر جب مخلوق خالق کی طرف بڑھتی ہے تو خالق اس کی طرف لپک کر اپنی رحمت و شفقت کی لپیٹ میں لے لیتا ہے کیونکہ وہ بہت ہی بخشنے والا اور پیار کرنے والا ہے۔
Top