Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 109
اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْیَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا وہ جو اَسَّسَ : بنیاد رکھی اس نے بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر تَقْوٰى : تقوی (خوف) مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے وَرِضْوَانٍ : اور خوشنودی خَيْرٌ : بہتر اَمْ : یا مَّنْ : جو۔ جس اَسَّسَ : بنیاد رکھی بُنْيَانَهٗ : اپنی عمارت عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ جُرُفٍ : کھائی ھَارٍ : گرنے والا فَانْهَارَ : سو گر پڑی بِهٖ : اسکو لے کر فِيْ : میں نَارِ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی یا وہ جس نے ایک کھائی کے گرتے ہوئے کنارے پر اپنی عمارت کی بنیاد رکھی اور وہ مع اپنے مکین کے آتش دوزخ میں جا گری ؟ اللہ انہیں راہ نہیں دکھاتا جو ظلم کا شیوہ اختیار کرتے ہیں
مسجد ضرار اور مسجد قباء کا تقابل کر کے دکھایا گیا ہے تاکہ بات ذہن نشین ہوجائے : 141: نبی اعظم وآخر ﷺ نے ایسے شخص کو امام بنانے سے منع فرمایا جس کو آپ نے قبلہ رو تھوکتے دیکھا اس محلّہ کے لوگوں نے یہ فرمایا کہ فلاں شخص تم کو جماعت کراتا ہے لیکن آئندہ تم اس کو امامت کے لئے کھڑا نہ کرنا۔ لوگوں نے عین نماز کے وقت اس کو نماز سے روک دیا کن لوگوں نے ؟ جن لوگوں نے اس کو وہاں مقرر کیا تھا اور یہ اس لئے فرمایا گیا کہ انہی لوگوں کو حق ہے جن لوگوں نے اس کو امام منتخب کیا ہے۔ وہ شخص جس کو اماتم سے روکا گیا آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ نے ان لوگوں کو میری امامت سے منع فرمایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! میں نے منع کیا۔ عرض کیا کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ میں نے تجھے قبلہ رو تھوکتے دیکھا حالانکہ میں نے اس سے منع کیا ہوا ہے۔ غور کیجئے کہ اگر امامت کا وہ شخص مستحق نہیں جو قبلہ رو تھوکنے سے پرہیز نہ کرے تو اس کا مطلب کیا ہوا ؟ آج ہم جن لوگوں کو امامت کے لے منتخب کرتے ہیں وہ کردار کے لحاظ سے کیسے لوگ ہوتے ہیں ؟ وہ جھوٹ بولیں ، کم تولیں ، تم ماپیں ، حرام کھائیں ، گندے رہیں ، گندے کام کریں ، مسجدوں میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کریں ، مردے نہلائیں اور مزدوریاں وصول کریں ، نکاح پڑھیں اور مہر میں وہ بھی حصہ دار ہوں ، نوزائیدہ بچوں کی اذانیں دیں اور رقم وصول کریں ، جنازے پڑھائیں اور جنازہ کی اجرتیں وصول کریں۔ گویا محلّہ اور بستی کے سارے لوگوں کی باتیں برداشت کرنے کی صلاحیت ان میں موجود ہو کہ وہ جس کی بات سنیں جی ہاں ! کہہ سکیں اور جو وہ کہیں اس کو کرسکیں اور چاہے کردار کے ، جسم کے ، خوراک کے کتنے گندے ہوں امامت کے لئے بالکل فٹ ہیں اس لئے کہ ان میں امامت کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ ایسے ظالموں پر کبھی راہ ہدایت نہیں کھولتا : 142: یہ ظالم کون ہیں ؟ وہی جو دین کا نام لے کر طرح طرح کے مفسدہ دین میں بپا کرتے رہتے ہیں اور مسجدوں کو جو خالص اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کی جانا قرار پائی تھیں اللہ کی عبادت کے لئے بلکہ گروہی تقسیم کی بحالی اور اس کو مضبوط رکھنے کے لئے ک میں گاہیں بنادی گئیں اور ان میں ہر وہ کام روا رکھا گیا جس سے نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر منع فرمایا تھا اور اس طرح وہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور جو اس خلاف ورزی کو بزور بازو کراتے ہیں سب کے سب وہی ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ان کے متعلق پوری وضاحت سے فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی ان کو بامردا اور فائز المرام نہیں کرے گا بلکہ یہ ہمیشہ نامرادہی رہیں گے۔ لوگ چاہے ان کو جو کہیں اور جو چاہے مانیں۔
Top