Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 10
لَا یَرْقُبُوْنَ فِیْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ
لَا يَرْقُبُوْنَ : لحاظ نہیں کرتے ہیں فِيْ : (بارہ) میں مُؤْمِنٍ : کسی مومن اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد وَ : اور اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْمُعْتَدُوْنَ : حد سے بڑھنے والے
کسی مومن کے لیے نہ تو قرابت کا پاس کرتے ہیں ، نہ عہد وقرار کا یہی لوگ ہیں کہ ظلم میں حد سے گزر گئے ہیں
ان لوگوں کو نہ قرابت کا احساس ہے اور نہ ذمہ داری کا : 14: ان کی اس بےحسی کو دبارہ بیان کیا گیا کہ جاہل قوموں میں بھی قرابت داری اور اپنی ذمہ داری کا ایک حد تک ضرور احساس ہوتا ہے لیکن ان لوگوں کی غیرت کا اس طرح جنازہ نکل چکا ہے کہ ان کو ان حقوق کا بھی ذرا احساس نہیں رہا اور وہ محض ان کے رسم و رواج نے نہیں رہنے دیا حالانکہ عربوں میں اس کا بہت احساس کیا جاتا تھا اور وہ رشتہ داری کی خاطر جان تک قربان کردینے کو فخر سمجھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر مزید دیکھا جائے تو آخر بنوبکر ان کے حلیف ہی تو تھے اور ان کی خاطر انہوں نے عہد و پیمان کو پس پشت ڈالا اور جان کی بازی لگا دی اسکے نتتیجہ میں فتح مکہ کو انہوں نے برداشت کرلیا فرمایا ان کی ضد بھی کتنی عجیب ہے کہ برائی کے کاموں میں انہوں نے کتنا بڑا خطرہ مول لے لیا اور محمد رسول اللہ ﷺ جو انہی کے اپنے خاندان کے ایک فرد تھے ان کی قرابت کا ذرا بھی احساس نہ کیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقعہ پر ان کو یاد بھی دلایا کہ میں تم سے اس کام پر کوئی اجر نہیں چاہتا مگر ہاں ! یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم لوگ یعنی اہل قریش کم از کم اس رشتہ داری کا تو لحاظ کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے چاہئے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے لیکن اگر تم نہیں مانتے تو یہ ستم نہ کرو کہ سارے عرب میں سے بڑھ کر تم ہی میری دشمنی پر تل گئے ہو۔ چناچہ سورة شوریٰ میں یہ ارشاد اس طرح بیان کیا گیا کہ : ” اے پبرمو اسلام ! ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ “ (الشوریٰ 42 : 23)
Top