Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 12
وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر نَّكَثُوْٓا : وہ توڑ دیں اَيْمَانَهُمْ : اپنی قسمیں مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد سے عَهْدِهِمْ : اپنا عہد وَطَعَنُوْا : اور عیب نکالیں فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَقَاتِلُوْٓا : تو جنگ کرو اَئِمَّةَ الْكُفْرِ : کفر کے سردار اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَآ : نہیں اَيْمَانَ : قسم لَهُمْ : ان کی لَعَلَّهُمْ : شاید وہ يَنْتَهُوْنَ : باز آجائیں
اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کرچکے ہیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر کفر کے سرداروں سے جنگ کرو یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسمیں کوئی قسمیں نہیں کہ وہ باز آجائیں
عہد و پیمان کو توڑ کر کفر کی طرف گامزن ہونے والوں کا علاج کیا ہے ؟ 16: کسی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کے لئے بار بار اور مختلف پیرائیوں سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ اس جگہ استعمال کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ جتنی اہم بات ہوتی ہے اس کی احمیت کے پیش نظر بھی یہی طریقہ بیان اختیار کیا جاتا ہے اور فریق مخالف پر اثر ڈالنے کے لئے بھی کہ اس طرح وہ سوچ سمجھ کر جو کچھ کرنا چاہتا ہے کرے ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں اصلاح کا پہلو ہی آجائے جو فریقین کے لئے مفید ہو۔ شروع سورة سے اس مضمون کو مختلف طریقوں سے بیان شروع کیا اور اسی طرح کیا جا رہا ہے اب بھی اگر وہ بار بار یاد دہانی کرانے کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہیں نہ توبہ کریں اور نہ ہی عہد و پیمان کی پابندی کریں بلکہ الٹا آپ لوگوں کا مذاق اڑائیں ، آپ کے دین پر طعن وتشنیع کریں تو پھر ان کفر کے اماموں کے ساتھ سوائے جنگ کے کوئی اور صورت بھی ممکن ہے۔ ان لوگوں کو کفر کے امام کہا گیا ہے کیوں ؟ امام پیشوا کو کہتے ہیں جس کی حرکات و سکنات پر دوسرے حرکت کرتے ہیں یہ لوگ خود بھی کافر تھے اور دوسروں کو بھی کفر پر قائم رہنے کی تلقین کرتے تھے اور دامے درمے سخنے ان کی مدد کرتے اور اپنی طاقت و قوت اور سیادت و پیشوائی اور دوچھراہٹ کے باعث ان پر اثر انداز ہوتے تھے اس لئے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا کہ اہل مکہ کی اصل طاقت کا ارچشمہ یہی ت تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کی قریبی رشتہ داری بھی انہی لوگوں سے تتھی جس کی وجہ سے اس کا خطرہ ہو سکتا تھا کہ ان کے معاملہ میں شاید کوئی رعایت برتی جائے۔ اس لئے ان کی طرف اشارہ کردیا اور ان کا کام یہ ہے کہ وہ دین کی باتوں میں ٹھٹھہ اور مذاق سے کبھی باز نہیں آتے اور عہد و پیمان کا کبھی پاس نہیں کرتے اور اب ان کے سامنے قسم کی کوئی حقیقت نہیں یہ لوگ صرف دوسروں کو یقین دلانے کے لئے قسمیں کھاتے ہیں جو بالکل خلاف واقعہ ہوتی ہیں اور اس وقت ان کے خلاف جنگ کا جو اعلان کیا جا رہا ہے تو یہ گویا ان کے سمجھانے کا ایک آخری ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو سوچنے کے لئے چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ شاید وہ باز آجائیں۔
Top