Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
تمہارے پاس ایک رسول آگیا جو تم ہی میں سے ہے ، تمہارا رنج و کلفت میں پڑنا اس پر بہت شاق گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہش مند ہے ، وہ مومنوں کے لیے شفقت رکھنے والا ، رحمت والا ہے
اے پیغمبر اسلام ﷺ ! آپ کی بعثت ہی خیر عظیم ہے : 168 : اے پیغمبر اسلام ﷺ اللہ نے آپ کو مجسمہ ” خیر عظیم “ بنا کر بھیجا ہے اس لئے کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا وہ بھی ” خیر کثیر “ ہے۔ آپ ﷺ کی بنوت کا سورج روشن ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ بلاشب وہ دل کے اندھوں کو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کا نظر نہ آنا بھی ان کے لئے فائدہ سے خالی نہیں اگر ناقدرے اور ناشکتے لوگ اس کی قدر نہیں کرتے اتو اس میں انہی کی تباہی ہے۔ آپ ﷺ تو ان کے ایمان وہدایت کے حریص ہیں اور ان کی دنیوی اور اخروی فوز و فلاح کے لئے بےچین حالانکہ اس میں آپ ﷺ کا نہیں بلکہ ان کا اپنا نفع ہے اگر یہ لوگ آپ ﷺ کی قدر کرتے تو اپنی ہی دنیا و آخرت سنوارتے لیکن یہ حقیقت ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تو تم بھی ان کی پروا نہ کرو بلکہ ان کو صاف صاف کہہ دو کہ میرے لئے اللہ کافی ہے میں تتو اس کی عبادت میں لگا ہوں اور لگا رہوں گے ، اسی پر میرا بھروسہ ہے ، وہی میرا پروردگار ہے جس کے عرش عظیم کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں اور ایہی وہ پیغام ہے جو نبی رحمت ﷺ اللہ کی طرف سے قوم کو سنانے کے لئے تشریف لائے جو اول تا آخر جاری وساری رہا یہ سورت بھی تقریباً آخری سورتوں میں ہے اور یہ پیغام بھی مکمل طور پر سنا دیا گیا ہے۔ ہمارے مفسرین کے ہاں ان دونوں آیات پر بہت بحث کی گئی ہے بعض نے ان دونوں آیتوں کو آخری وحی قرار دیا اور بعض نے ان دونوں آیتوں کو مکی بتایا اور واضح کیا کہ یہ دونوں آتیں مکہ میں نازل ہوئی تھیں اگرچہ یہ سورت مدنی ہے لیکن اس کے آخر پر یہ دونوں آیتیں مکی رکھی گئیں پھر اپنے اپنے دلائل بھی بیان کئے ہیں۔ تفصیل ان کی بہت لمبی ہے چونکہ ہماری تفہیم میں یہ بات صحیح نہیں کہ یہ دونوں آیتیں مکی ہیں اور ہم اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتے کہ اس بحث کو چھیڑ کر ایک لاحاصل کلام کے پیچھے پڑا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ : اس سورت کی آخری دو آیتوں میں عرب کی اسی تمام نسل سے خطاب ہے جو اس وقت مخاطب تھی فرمایا اللہ کا رسول تم میں آگیا اور اس نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا اور وہ کسی دوسری جگہ سے تم میں نہیں آنکلا تھا سنت الٰہی کے مطابق خود تم ہی میں پیدا ہوا اور چونکہ وہ تم ہی میں سے ہے اس لئے اول سے لے کر آخر تک ان کی ساری باتیں تمہاری نگاہوں کے سامنے رہی ہیں اس کا لڑکپن بھی تم میں گزرا اور اس کی جوانی کے دن بھی تم میں بسر ہوئے۔ پھر اس نے نبوت کا اعلان کیا تو تم سے کہیں چھپ کر زندگی بسر نہیں کی۔ اس کی ساری باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے پھر جو کچھ گزرنا تھا گزرا اور تم نے مظلومی و بےکسی کے اعلان بھی سن لئے۔ فتح و کامرانی میں ان کی تصدیق بھی کرلی۔ تم میں کوئی نہیں جو اس کے بےداغ زندگی کا شاہد نہ ہو اور کوئی نہیں جس نے اس کی ایک ایک بات کی سچائی آزما نہ لی ہو۔ پھر ان کے ایک وصف پر زور دیا جو منصب رسالت کے لئے اور ہر انسان کے لئے جو قوم کی راہنمائی و قیادت کا مقام رکھتا ہو۔ سب سے زیادہ ضروری وصف ہے یعنی ابنائے جنس کے لئے شفقت و رحمت۔ فرمایا اس سے زیادہ کوئی بات تمہارے لئے یقینی نہیں ہوسکتی کہ وہ سر پاتا شفقت و رحمت ہے وہ تمہارا دکھ برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ تمہاری بھلائی کی خواہش سے لبریز ہے پھر وہ تمام مومنوں کے لئے خواہ عرب کے ہوں خواہ عجب کے رؤف رحیم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ پیام موعظت یہاں کیوں ضروری ہوا ؟ اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ دو باتیں سامنے رکھ لی جائیں۔ سورت کے نزول کا وقت اور سورت کے مطالب۔ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب تمام عرب میں کلمہ حق سربلند ہوچکا تھا اور قرآن کریم نے دعوت حق کی عالمگرع فیروز مندیوں کی خبر دے دی تھی تاہم ان لوگوں کے لئے جو کل تک غربت و بےکسی کی انتہائی مصیبتوں میں رہ چکے تھے تمام عرب کا مسلمان ہوجانا بڑی سے بڑی کامرانی تھی اور اس لئے ناگزیر تھا کہ ایک طرح کی فارغ البالی اور بےپروائی طبیعتوں میں پیدا ہوجائے۔ غزوہ تبوک کی تیاریوں میں جو بعض لوگوں سے تساہل ہوا تو اس کی تہہ میں بھی اسی حالت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اس کی تفصیل اور شدت کے ساتھ استعداد کا ارادہ عزم و ہمت کی تلقین کی گئی کہ اس کی نظیر کسی دوسری سورت میں نہیں ملتی۔ اس لئے یہاں اس آخری موعظت و اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب پر دو باتیں واضح کردی جائیں ایک یہ کہ جو کچھ ہوچکا ہے یہ معاملہ کی تکمیل نہیں ہے بلکہ محض ابتداء ہے اور اس لئے ادائے فرض کا مطالبہ بدستور باقی ہے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم کام سے فارغ البال ہوگئے۔ دوسرے یہ کہ کلمہ حق اپنے عروج کے لئے تمہارا محتاج نہیں اگر آئندہ تم نے کوتاہی کی تو خود نقصان اٹھاؤ گے۔ دعوت حق کا کچھ نہیں بگڑے گا اس کے لئے صرف اللہ کی جہانداری عالم کے عرش عظیم کا مالک ہے نصرت و حمایت کفایت کرتی ہے۔ ان سطور سے وہ تمام الجھاؤ دور ہوگئے جو ان دو آیتوں کے بارے میں پیدا ہوگئے تھے چونکہ ان آیتوں میں اہل عرب سے خطاب ہے اور اعراض کی صورت میں توکل علی اللہ کی تلقین کی گئی ہے اور یہ اسلوب بیان زیادہ تر مکی سورتوں کا ہے اس لئے ہمارے مفسرین نے خیال کیا کہ یہ مدنی آیتیں نہیں ہو سکتیں اور سورت براءت میں ان کا ہونا تعجب انگیز ہے پھر اس استعجاب کو دور کرنے کے لئے طرح طرح کی توجیہیں کی گئیں اس تفسیر کے بعد ہم نے اختیار کی وہ سب غیر ضروری اور بےمحل ہوگئیں۔ مخالفین اسلام کا ایک اعتراض اور اس کا جواب : گزشتہ دونوں آیات کی مجموعی تفسیر پر اس سورت کے مندرجات ختم ہوگئے لیکن جیسا کہ ہم نے پیچھے عرض کیا ایک بات باقی رہ گئی اور وہ ہے معاندین و مخالفین کا یہ اعراض کہ اسلام بزور شمشیر پھلایا گیا ، ایسا کیوں کہا گیا ہے ؟ اس لئے کہ سورة الانفال اور سورة التوبہ دونوں میں کافروں سے لڑنے اور ان کو قتل کرنے کا حکم تھا اور یہی امر بحث کے قابل ہے جس کی نسبت مخالفین اسلام نے اپنی غلطی اور ناسمجھی سے اسلام کی نسبت مختلف پیرایوں میں اعتراض قائم کئے ہیں۔ اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کافروں کے ساتھ جو کیا تھا اور جس قدر اور جس طرح انہوں نے اللہ کے حکم سے کافروں کو قتل و غارت کیا اگر اس کا مقابلہ محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کی لڑائیوں سے کیا جائے تو معاملہ ہوگا کہ وہ لڑائیاں بمقابلہ موسیٰ (علیہ السلام) کی لڑائیوں کے اللہ کی رحمت تھی۔ پس جو لوگ تورات اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مانتے ہیں ان کے لئے تو حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول ہی کافی ہے کہ ” تو اس تنکے کو جو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے کیوں دیکھتا ہے اور جو شہتیر کی تیری آنکھ میں ہے اسے دریافت نہیں کرتا۔ “ مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے کہ کم صرف حجت الزامی پر اکتفا کریں بلکہ ہمارا مقصود ہر امر کی تحقیق کرنا اور اس کی اصلیت کو ظاہر کرنا ہے اس لئے ہم اس امر کی بخوبی تحیقی کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر پر جو اعتراض جامع ، جمع اعتراضات ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک بانی مذہب کو جس کا موضوع سچی اور سیدھی راہ کا بتانا اور اس کے نتیجوں کی خوشخبری دینا اور بد راہ کی برائی کو جتانا اور اس کے بد نتیجوں سے ڈرانا اور اپنی نصیحت اور وعظ سے انسانوں میں نیکی اور نیک دلی ، رحم اور صلح ، آپس میں محبت و ہمدردی کا قائم کرنا اور تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو جو اس راہ میں پیش آئیں صبر و تحمل سے برداشت کرنا زیبا ہے یا زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اور قتل و خونریزی سے ان کو منوانا لازم ہے۔ بس اب ہم کو اس امر کی تحقیق کرنا مقصود ہے کہ کیا قرآن کریم میں ہتھیار اٹھانے کا حکم زبردستی سے اسلام منوانے کے لئے تھا ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ قرآن مجید سے اور تمام لڑائیوں سے جو آنحضرت ﷺ کے وقت میں ہوئیں بخوبی ثابت ہے کہ وہ لڑائیاں صرف امن قائم رکھنے کے لئے ہوئی تھیں ، نہ زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوانے کے لئے۔ مکہ میں اہل ملکہ نے آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک کو اور ان مرد اور عورتوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے ایذا پہنچانے میں کوئی وقیقہ باقی نہیں چھوڑا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے خود اور کے پیرو مسلمان مرد و عورت نے ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو نہایت صبر و تحمل سے برداشت کیا تھا جن کے خیال سے تعجب آتا ہے کہ کیونکر برداشت ہوئی تھیں۔ خاص آنحضرت ﷺ کی نسبت منہ در منہ دشنام وہی کرنا اور برا کہنا اور تذلیل کرنا یہ تو ایک عام بات تھی جو روزہ مرہ ہوتی تھی۔ معززیں قریش کمینہ لوگوں کو اور اپنے غلاموں کو اشارہ کرتے تھے اور وہ اس طرح سے آنحضرت ﷺ کو ایذا پہنچاتے تھے۔ ایک دفعہ اسی طرح ان کمینہ لوگوں اور قریش کے غلاموں نے آنحضرت ﷺ کو گھیر لیا اور گالیاں دینی اور سخت و سست الفاظ کہہ کر غل مچانی شروع کی تو بہت سے آدمی جمع ہوگئے اور ایسی دھکا پیل ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو ایک احاطہ میں پناہ لینی پڑی۔ (ابن ہشام ص 280) ابو لہب ہمیشہ آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر نجاست اور نجس و بدبودار چیزیں ڈلوا دیتا تھا۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 28) ام جمیل ابی لہب کی بیوی اس راستہ پر جہاں سے آنحضرت ﷺ کی آمدو رفت ہوتی تھی کانٹے ڈلوا دیتی تھی۔ ( ابن ہشام ص 232) راہ چلنے کی حالت میں آنحضرت ﷺ کے سر مبارک پر لوگ مٹی اور کوڑا کرکٹ ڈال دیتے تھے۔ (ابن ہشام ص 277) قریش نے آپس میں نہایت سخت عہد کیا تھا کہ کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے پاس نہ جائے ، ان کے پاس نہ بیٹھے ، ان کی بات نہ سنے۔ ایک دفعہ رقبہ جا کر آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھا اور کچھ کلام سنا اس کی خبر ابی کو پہنچی جو اس کا بڑا دوست تھا۔ وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تو آنحضرت ﷺ کے پاس جا کر بیٹھا تھا اور ان کی باتیں سنیں تھیں تیری صورت مجھ کو دیکھنی اور تجھ سے بات کرنی حرام ہے اور میں اپنی قسم کو زیادہ سخت کروں گا اگر تو اب گیا اور ان کے پاس بیٹھا اور ان کی بات سنی کیا تجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ ان کے منہ پر تھوک دیتا۔ چناچہ اس خدا کے دشمن نے ایسا ہی کیا۔ (ابن ہشام ص 238) جو لوگ مسلمان ہوگئے تھے ان پر بھی ظلم ہوتا تھا اور سخت ایذا پہنچائی جاتی تھی جہاں بےکس مسلمانوں کو دیکھتے تھے پکڑ لیتے تھے۔ قید کرتے تھے ، مارتے تھے ، بھوکا پیاسا رکھتے تھے ، جلتی ریت میں ڈال دیتے تھے ، آگ سے جلا کر ایذا پہنچاتے تھے۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 26) حضرت بلال کو عین دوپہر میں سورج کی تپش کے وقت امیہ بن خلف کبھی منہ کے بل اور کبھی پیٹھ کے بل جلتی ریت پر ڈال دیتا تھا اور چت کر کے ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تیرے ساتھ اسی طرح کئے جاؤں گا جب تک کہ تو مر جائے تو محمد ﷺ کے ساتھ کفر کرے۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 26) ایک دفعہ انہوں نے عمار بن یاسر کو اور اس کے باپ اور ماں کو جو مسلمان ہوگئے تھے پکڑ لیا اور دھوپ میں جلتی ریت پر ڈال دیا۔ اتفاقاً آنحضرت ﷺ اس طرف سے گزرے اور ان سے کہا اے یاسر کے خاندان کے لوگو صبر کرو تمہاری جگہ جنت میں ہے۔ حضرت یاسر تو اس سختی کی حالت میں مر گئے اور ان کی بیوی سمیہ نے ابو جہل کے ساتھ سخت کلامی کی۔ ابو جہل نے وہ ہتھیار جو اس کے ہاتھ میں تھا حضرت سمیہ مظلومہ کی شرمگاہ پر مارا کہ وہ مرگئیں اور اس طرح وہ سب سے اول شہید ہوئی ہیں۔ اس کے بعد ابو جہل نے حضرت عمار کو ایذا پہنچانے میں زیادہ سختی کی۔ کبھی دھوپ میں ڈالتا تھا ، کبھی آگ سے گرم کیا ہوا پتھر ان کے سینہ پر رکھواتا تھا ، کبھی ان کو پانی میں ڈال کر ڈبواتا تھا۔ آخر کار ان سے کہا کہ ہم تجھ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ تو محمد ﷺ کو دشنام نہ دے اور لات کی تعریف نہ کرے لاچار انہوں نے ایسا ہی کیا تب ان کو چھوڑا۔ مگر ان کے دل میں ایمان مستحکم تھا۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 26) خباب بن ارت کو کافروں نے پکڑ لیا اور نہایت سخت ایذا پہنچائی اس کو ننگا کر کے منہ کے بل گرم جلتی ریت پر لٹاتے تھے اور پھر پتھر کی کتلوں کو آگ سے گرم کر کے اس پر لٹاتے تھے اور اس کا سر مروڑ کر الٹا پھیر دیتے تھے مگر وہ خاموش تھا اور جو کچھ وہ کہتے تھے مطلق اس کا جواب نہیں دیتا تھا۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 27) ابو فی کہ کو امیہ بن خلف نے پکڑا اور اس کے پاؤں میں رسی بندھوائی اور کھنچوایا اور جلتی ریت میں ڈال دیا۔ اتفاقاً ایک بدصورت کالا پاؤِ والا چھوٹا سا کیڑا اس کے قریب نکلا تو امیہ نے طعنہ سے کہا کہ یہ تیرا خدا ہے اس نے کہا کہ اللہ میرا رب ہے اور تیرا رب اور اس کیڑے کا بھی۔ یہ سن کر امیہ نے نہایت زور سے اس کا گلا گھونٹنا شروع کیا اس وقت کا بھائی ابی بن خلف بھی موجود تھا اور کہتا تھا زور سے تاکہ محمد آجائیں اور اپنے جادو سے اس کو چھڑا لیں۔ غرضیکہ اس کا گلا گھونٹتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے خیال کیا کہ وہ مرگیا مگر وہ مرا نہیں تھا۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 27) خود حضرت عمر ؓ نے اپنے مسلمان ہونے سے پہلے لبنہو کی ایک مسلمان عورت کو پکڑ لیا اور اس کو ایذا پہنچائی اور مارنا شروع کیا اور جب تھک جاتے تھے تو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے میں نے تجھے چھوڑا نہیں ہے میں تھک گیا ہوں اس لئے ٹھہر گیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ اسی طرح خدا بھی تیرے ساتھ کرے گا اگر تو مسلمان نہ ہوا۔ حضرت عمر ؓ کو خود مسلمان ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ فاطنہ ان کی بہن معہ اپنے شوہر کے مسلمان ہوگئی ہے اور خباب بن ارت ان کو قرآن سکھاتا ہے۔ حضرت عمر ؓ ان کے پاس آئے اور خوب مارا کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ جب خون بہنے لگا تو ان کی بہن نے کہا کہ ہاں ہم تو مسلمان ہوگئے ہیں۔ (ابن خلدون ج د ص 9) اسی طرح ابو جہل نے زنیرہ مسلمان عورت کو اس قدر ایذا دی کہ وہ اندھی ہوگئی اور جب اس نے جانا کہ وہ اندھی ہوگئی تو کہا کہ لات و عزیٰ نے تجھ کو اندھا کیا ہے اس نے کہا لات اور عزیٰ تو خود ہی نہیں جانتے کہ ان کو کون بوجتا ہے مگر یہ ایک آسمانی امر ہے اور میرا خدا قادر ہے کہ پھر میری آنکھوں میں روشنی دے دے۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 27) نہدیہ نے ایک مسلمان عورت بنی عبدالدار کو اور اسود بن عبد یغوث نے ایک مسلمان عورت ام عبیث کو سخت ایذائیں دی تھیں یہ طریقہ ایذا دینے کا برابر اجاری تھا۔ ابو جہل جب کسی شریف آدمی کو دیکھتا کہ مسلمان ہوگیا ہے تو اس سے کہتا کہ کیا تو اپنا مذہب اور اپنے باپ کا مذہب جو تجھ سے اچھا تھا چھوڑتا ہے اور اس کی عقل پر نفرین کرتا اس کو حماقت کا کام بتلاتا اور اس کو بےعقل کہتا اور اس کو ذلیل کرتا اور اگر کوئی سوداگر ہوتا تو کہتا کہ تیری تجارت ڈوب جائے گی اور تیرا مال برباد ہوجائے گا اور اگر وہ مسلمان کوئی کمزور قبیلہ کا آدمی ہوتا تو اس کے پیچھے لوگوں کو لگا دیتا کہ اس کو ایذا دو ۔ (تاریخ ابن الاثیر ج 2 ص 28) کفار قریش نے آنحضرت ﷺ کا نام بجائے محمد کے مذمم بطور ہجو کے رکھ دیا تھا اور امیہ بن خلف اعلانیہ منہ در منہ آنحضرت ﷺ کو سب و شتم بدزبانی و دشنام دہی کرتا رہتا تھا۔ جب آنحضرت ﷺ قرآن پڑھتے تھے تو لوگ غل مچاتے تھے اور قرآن کے الفاظ کے ساتھ اپنے الفاظ ملا دیتے تھے۔ (ابن ہشام ص 224) ایک دفعہ ابن مسعود کعبہ کے پاس گئے اور سورة الرحمٰن پڑھنی شروع کی اور قریش جو کعبہ کے آس پاس بیٹھے تھے ہجوم کر آئے اور جب جانا کہ وہ قرآن پڑھتے ہیں جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا ہے تو ان کے منہ کو پیٹنا شروع کیا کہ ان کا منہ نیلا ہوگیا اور مارنے کے نشان منہ پر پڑگئے مگر جہاں تک ان سے بن پڑا وہ بھی پڑھے گئے۔ (ابن ہشام ص 202) پانچ برس تک اسی قسم کی تکلیفیں اور ایذائیں آنحضرت ﷺ کو اور ان مرد اور عورتوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے پہنچتی رہیں اور خود رسول اللہ ﷺ نے اور تمام مسلمان مرد اور عورتوں نے نہایت صبر و تحمل سے ان کو برداشت کیا مگر کوئی ایسی صورت جس سے مسلمان امن میں رہیں پیدا نہ ہوئی۔ اس وقت امن حاصل کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا عزیز وطن چھوڑ دیں اور حبشہ کو چلے جائیں جہاں کا بادشاہ بجاشی عیسائی مذہب کا تھا۔ 5 نبوی میں حبشہ کی طرف مسلمانوں کی پہلی ہجرت : اس اجازت پر تھوڑے مسلمان مرد اور عورتوں نے رجب 5 نبوی میں حبشہ کو ہجرت کی۔ گیارہ ، بارہ مرد اور چار پانچ عورتیں اس قافلہ میں تھیں۔ مردوں میں حضرت عثمان ابن عفان اور عورتوں میں حضرت رقیہ بیٹی رسول اللہ ﷺ ، بیوی حضرت عثمان کی شامل تھیں۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے قتل کا پہلا مشورہ : جب قریش مکہ نے یہ بات دیکھی کہ جو مسلمان حبشہ میں گئے وہ آرام سے رہتے ہیں اور حضرت عمر ؓ بھی مسلمان ہوگئے ہیں اور اسلام عرب کے قبیلوں میں پھیلتا جا رہا ہے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کرنے کا ارادہ کیا اور سب لوگ اس بات پر متفق ہوگئے مگر اس زمانہ میں ابو طالب آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت علی ؓ کے والد زندہ تھے جب انہوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو جمع کیا اور آنحضرت ﷺ کو اپنے گروہ کی حفاظت میں لے لیا۔ (مواجب لدنیہ ص 327) جب قریش اپنے ارادہ پر کامیاب نہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے آنحضرت ﷺ کی حمایت کی ہے تو وہ پھر جمع ہوئے اور باہم مشورہ کر کے ایک عہد نامہ لکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب سے شادی اور بیان موقوف کیا جائے نہ کوئی ان کی بیٹیاں لے اور نہ کوئی ان کو بیٹیاں دے اور نہ کوئی ان کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ان سے کچھ خریدے اور اس پر سب نے اتفاق کر کے عہد نامہ لکھا اور اس کو خانہ کعبہ میں لٹکا دیا۔ اس معاہدہ سے بےانتہا تکلیف پہنچی۔ قریش میں سے بعض لوگ بسبب قرابت کے چھپ چھپا کر کچھ پہنچا دیتے تھے لکنی اگر کھل جاتا تھا تو نہایت فضیحت کئے جاتے تھے۔ ایک دفعہ حکیم بن خرام معہ اپنے غلام کے حضرت خدیجہ کے لئے جو اس کی پھوپھی اور آنحضرت ﷺ کی بیوی تھیں کچھ ستو لئے جاتا تھا ابو جہل رستہ میں مل گیا اور ان سے الجھ پڑا اور کہا کہ تو بنی ہاشم کے لئے کھانا لئے جاتا ہے میں ہرگز تجھ کو اور تیرے کھانے کو نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ تجھ کو مکہ میں فضیحت نہ کرلوں۔ یہ مصیبت کی حالت دو تین برس تک برابر جاری رہی۔ (ابن ہشام ص 222) 7 نبوی میں مسلمانوں کی دوسری ہجرت حبشہ : اس قسم کی مصیبتیں مسلمانوں پر برابر جاری تھیں اور کسی طرح کا امن مسلمانوں کو مکہ میں نہیں ہوتا تھا اور جو لوگ حبشہ میں ہجرت کر گئے تھے وہ وہاں امن میں تھے اس لئے اور مسلمانوں کو بھی ہجرت کر جانے کی اجازت ہوئی۔ چناچہ بہت سے مرد اور عورتیں ہجرت کر گئے۔ مجموعی طور پر دونوں دفعہ کے ہجرت کرنے والوں کی تعداد بیاسی یا تراسی تھی۔ 10 نبوی میں مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی : حضرت خدیجہ ؓ کے انتقال کے بعد ابو طالب آنحضرت ﷺ کے چچا کا بھی جن کے رعب و داب سے کسی قدر آنحضرت ﷺ کو امن تھا انتقال ہوگیا اور قریش کو بہت زیادہ تکلیف اور ایذا پہنچانے کا موقع ہاتھ آیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کا نماز پڑھنے کی حالت میں بکرے کی اوجھڑی ان پر ڈال دیتے تھے۔ لاچار آنحضرت ﷺ نے چھپ کر نماز پڑھنی اختیار کی تھی اور کھانا پکاتے وقت کھانا پکنے کی ہنڈیا میں اوجھڑی کے ٹکڑے ڈال دیتے تھے۔ راستہ چلنے میں ان کے سر مبارک پر مٹی اور کوڑا پھینکتے تھے اور آنحضرت ﷺ سب کو برداشت کرتے تھے اور ان سے فرماتے تھے کہ تم کیا اچھے میرے ہمسائے ہو جب یہاں تک حالت پہنچ گئی تو آپ بنی تتفیف کے پاس گئے تاکہ وہ ان کی مدد کریں مگر ان میں سے کوئی آمادہ نہ ہوا اور پھر آنحضرت ﷺ مکہ میں واپس چلے آئے۔ اسی طرح عرب کے اور قبیلوں نے بھی ایمان لانے سے اور آنحضرت ﷺ کی مدد کرنے سے انکار کیا۔ (ابن ہشام ص 276 ، 277) اسی درمیان میں مدینہ سے چند لوگ حج کرنے آئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو قرآن سنایا اور مسلمان ہونے کو کہا۔ سات آدمی ان میں سے مسلمان ہوئے جب وہ واپس گئے تو مدینہ کے لوگوں میں اسلام کا چرچا ہوا اور وہاں سے ستر آدمی خفیہ رات کو آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور اسلام لائے اور جان و مال سے آنحضرت ﷺ کی امداد کا معاہدہ کیا اور واپس چلے گئے۔ جب قریش نے یہ خبر سنی تو مسلمانوں کو طرح طرح سے ایذا دینی اور تنگ کرنا شروع کیا اس پر آنحضرت ﷺ نے مجبور ہو کر مسلمانوں کو مدینہ میں ہجرت کرنے کی اجازت دی اور بہت سے مسلمان مرد اور عورت جس طرح جس کو موقع ملا مدینہ چلا گیا ۔ انہی ہجرت کرنے والوں میں حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان کہ حبشہ سے واپس آچکے تھے اور عیاش ابن ربیعہ بھی تھے مگر باایں ہمہ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں جن کو قریش کے خوگ سے یا اور کسی طرح پر جانے کا موقع نہیں ملا ملک میں رہ گئے۔ 13 میں نبی اعظم و آخر ﷺ کے قتل کا دوبارہ مشورہ اور آپ ﷺ کی ہجرت مدینہ : جب کہ اس طرح مسلمان رفتہ رفتہ ہجرت کر گئے تو آنحضرت ﷺ کی رفاقت میں بجز حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور حضرت ابوبکر ؓ کے کوئی نہیں رہا تھا۔ قریش مکہ کو مسلمانوں کے اس طرح نکلے جانے سے تردد پیدا ہوا اور انہوں نے یقین کیا کہ وہ امن پا کر متفق ہو کر ان پر حملہ کریں گے۔ اس باب میں انہوں نے پھر مجلس جمع کی ، اس غرض سے کہ اب کیا کیا جائے۔ بعضوں نے یہ صلاح دی کہ آنحإرت ﷺ کو جو ابھی تک مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے گرفتار کر کے طوق و زنجیر ڈال کر ایک مکان محفوظ میں قید کردیا جائے۔ بعضوں نے یہ رائے دی کہ آنحضرت ﷺ کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ ابو جہل نے آنحضرت ﷺ کے قتل کرنے کی رائے دی اور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ عرب کے ہر ایک قبیلہ سے ایک ایک جوان آدمی منتخب کیا جائے اور ہر ایک تلوار دی جائے اور سب مل کر ایک ساتھ تلواریں مار کر آنحضرت ﷺ کو قتل کرڈالیں اور جب تمام قومیں اس قتل میں شریک ہوں گی تو قبیلہ بنو عبد مناف کو جس قبیلہ میں آنحضرت ﷺ کو قتل کر ڈالیں اور جب تمام قومیں اس قتل میں شریک ہوں گی تو قبیلہ بنو عبد مناف کو جس قبیلہ میں آنحضرت تھے جھگڑا کرنے کی طاقت نہ ہوگی۔ اس امر پر سب نے اتفاق کیا اور سب اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ اس تجویز کو پورا کریں۔ اسی امر کا ذکر قرآن مجید میں ہے ، جہاں فرمایا ہے : اسی دن کی رات کو جب قریش مکہ نے تجویز ٹھہرائی ، آنحضرت ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی ، حضرت علی ؓ کو اپنا خلیفہ یا قائم مقام کر کے اپنے بچھونے پر سلا دیا تاکہ کافر جانیں کہ آنحضرت ﷺ سوتے ہیں اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے ساتھ لیا اور مکہ سے نکل کر ثور پہاڑ کے ایک غار میں جا چھپے۔ تین دن تک وہاں چھپے رہے اور پھر موقع پا کر مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے۔ صبح کو کفار قریش کو معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے گئے اور ان کی جگہ حضرت علی ؓ سوتے ہیں تو ان کو پکڑ لیا اور پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کہاں گئے ؟ انہوں نے کہ میں نہیں جانتا ان کو خوب مارا اور قید کردیا مگر تھوڑی دیر کے بعد چھوڑ دیا اور اعلان کیا کہ جو کوئی آنحضرت ﷺ کو پکڑ کر لائے اس کو سو اونٹ انعام دیا جائے گا۔ حضرت علی ؓ نے بھی مکہ سے ہجرت کی اور آفتاں و خیزاں بڑی مشکل سے چھپے رہ کر اور راتوں کو چل کر مدینہ پہنچے۔ پیادہ چلنے سے پاؤں سوج گئے تھے۔ جب مدینہ میں پہنچے تو اس قدر طاقت نہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جائیں اس لئے خود آنحضرت ﷺ ان کو دیکھنے ان کے پاس تشریف لائے۔ کافروں سے لڑنے کا حکم اور لڑائیوں کے واقعات : ہجرت کرنے پر بھی قریش مکہ مہاجرین کو اور جو لوگ ان کو پناہ دیتے تھے امن سے رہنے نہیں دیتے تھے۔ جن مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی ان کے گرفتار کرنے کو سمندر کے کنارہ تتک ان کا تعاقب کیا۔ مگر وہ ان کے ہاتھ نہ آئے اور حبشہ میں پہنچ گئے۔ اس پر بھی انہوں نے بس نہ کیا اور عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی امیہ کو بہت سے تحفے ہدیہ دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اور اس غرض سے کہ مسلمان جو وہاں سے چلے گئے ہیں انہیں قریش کو دے دے مگر نجاشی نے ان کے دینے سے انکار کیا۔ (ابن خلدون ج 2 ص 8) مدینہ کے لوگوں کے ساتھ بھی جو آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تھے اور مسلمان ہوگئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی نصرت کا وعدہ کیا تھا قریش مکہ نے برائی کرنے میں کچھ کمی نہیں کی تھی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ درحقیقت مدینہ والے جو آئے تھے وہ مسلمان ہوگئے تھے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کا وعدہ کیا ہے تو ان لوگوں کا تعاقب کیا وہ تو ہاتھ نہ آئے مگر سعد بن عبادہ ان کے ہاتھ لگ گئے۔ ان کو مکہ میں پکڑ لائے اور ان کو مارتے تھے اور ان کے بال پکڑ کر گھسیٹتے پھرتے تھے۔ (بن خلدون ج 2 ص 13) اس عداوت کے سبب جو قریش مکہ کو مہاجرین سے ہوگئی تھی ابو جہل ابن ہشام مدینہ میں آیا اور عیاش بن ابی ربیعہ کو فریب دیا کہ تیری ماں تیرے لئے روتی ہے اور کھانا پینا چھوڑ دیا ہے تو مکہ کو چل اور دھوکا دے کر مکہ لے آیا اور جب مکہ میں پہنچا تو ان کو قید کردیا۔ (ابن خلدون ج 2 ص 14) ان تمام حالات سے جو عداوت کہ قریش کو مسلمانوں کو ہوگئی تھی اور ہر طرح پر ان کے معدوم کرنے اور ایذا پہنچانے کی تدبیریں کرتے تھے بخوبی ظاہر ہوتی ہے۔ قریش مکہ کو مدینہ کے لوگوں سے بھی جو مسلمان ہوگئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی نصرت کا وعدہ کیا تھا ویسی ہی عداوت تھی جیہ کہ مکہ کے مہاجرین سے تھی۔ سب سے بڑا خوف قریش مکہ کو یہ تھا کلہ اگر یہ لوگ زیادہ قوی ہوجائیں گے تو مکہ پر حملہ کریں گے۔ چناچہ جب دوبارہ آنحضرت ﷺ کے قتل کا مشورہ کیا تو اس مشورہ میں جس شخص نے یہ رائے دی تتھی کہ آنحضرت کو طوق اور زنجیر ڈال کر قید کردیا جائے اس کی رائے اس دلیل پر نہیں مانی گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے اصحاب جو مکہ سے نکل گئے ہیں جمع ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے اور ان کو چھڑا لے جائیں گے اور جس شخص نے یہ رائے دی تھی کہ آنحضرت ﷺ کو جلا وطن کردیا جائے اور اس کی رائے بھیا سی وجہ پر روکی گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ اپنی فصاحت سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیں گے اور قریش مکہ کو کچل ڈالیں گے۔ یہی سبب تھا کہ قریش مکہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ (ابن الاثیر ج 2 ص 42) چنانچہ قرآن مجید میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اہل مکہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کرسکیں۔ “ (سورۃ بقرہ آیت 214) مدینہ والے بھی قریش کے حملہ سے مطمئن نہیں رہے تھے اس لئے مدینہ کے ان لوگوں میں سے جو ایمان نہیں آئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے دمینہ میں تشریف لانے کو پسند نہیں کرتے تھے اور مدینہ ان لوگوں سے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی نصرت کا وعدہ کیا تھا نہایت ناراض تھے چند معزز لوگ مدینہ کو چھوڑ کر مکہ چلے گئے تھے اور قریش سے جا ملے تھے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ایسی حالت میں آنحضرت ﷺ کو اور مہاجرین اور انصار کو اپنی اور مدینہ کی حفاظت اور امن وامان قائم رکھنے کے لئے کیا کرنا لازم تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے چار امر لازمی تھے کہ بغیر ان کے کبھی امن اور مطلوبہ حفاظت کسی طرح قائم نہیں رہ سکتی تھے۔ اول : اس بات کی خبر رکھنی کہ قریش مکہ کیا کرتے ہیں اور کس منصوبہ میں ہیں۔ دوب : جو قومیں کہ مدینہ میں یا مدینہ کے گرد رہتی ہیں ان سے امن کا اور قریش کی مدد نہ کرنے کا معاہدہ کرنا۔ لیکن عہد شکنی کی حالت میں ان سے مقابلہ کرنا اس منصوبہ کے لئے ایسا ہی ضروری تھا جیسا کہ امن کا معاہدہ کرنا کیونکہ اگر عہد شکنی کی مکافات نہ قائم کی جائے تو کوئی معاہدہ اپنے عہد پر قائم نہیں ہو سکتا۔ سوم : جو مسلمان کہ مکہ میں بوجہ مجبوری رہ گئے تھے اور موقع پا کر وہاں سے بھاگ آنا چاہتے تھے ان کے بھاگ آنے پر جس قدر ہو سکے ان کی اعانت کرنا۔ جو قافلہ مکہ سے نکلتا تھا ہمیشہ احتمال ہوتا تھا کہ شاید اس کے ساتھ بہانہ کر کے کوئی مسلمان مدینہ میں بھاگنے کے ارادہ سے نکلا ہو۔ چہارم : جو گروہ قریش کا مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے کا نکلے یا کسی طرح پر احتمال ہو کہ وہ مدینہ پر آنے والا ہے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کرنا کیونکہ ایسا کرنا اسی امن کے قائم رکھنے کے لئے لازمی و ضروری ہے ان چاروں باتوں میں سے کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی نسبت کہا جاسکے کہ اس سے زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام کا منوانا مقصود ہے۔ ان کے سوا دو اوامر ہیں جو ہتھیاروں کے اٹھانے کا باعث ہوتے ہیں : ایک یہ کہ : کافر ان مسلمانوں کو جو ان کے قبصہ میں ہوں تکلیف اور ایذا دیتے ہوں۔ ان کی مخصلی کے لئے یا ان کو ان کے ظلم سے نجات دلوانے کے لئے لڑائی کی جائے۔ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا 1ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا 1ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ0075 (النسا 4 : 75) ” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ؟ (جب کہ انہوں نے تم سے جنگ شروع کردی ہے) حالانکہ کتنے ہی بےبس مرد ہیں ، کتنی ہی عورتیں ہیں ، کتنے ہی بچے ہیں جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے جہاں کے باشندوں نے ظلم پر کمر باندھ لی ہے (یعنی مکہ سے) نجات دلا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا دوست بنا دے اور کسی کو ہماری مددگاری کیلئے کھڑا کر دے “ کون شخص ہے جو اس لڑائی کو انسنای اخلاق اور انسانی نیکی کے بر خلاف کرسکتا ہے اور کون شخص ہے جو اس لڑائی کی نسبت یہ اتہام کرسکتا ہے کہ وہ زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب قبول کروانے کے لئے ہے۔ دوسرے یہ کہ : کافر مسلمانوں کو ان کے مذہبی احکام ادا کرنے کے لیئے مانے ہوں۔ بشرطیکہ وہ ان کی عمل داری میں رہتے نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں ان کو وہاں سے ہجرت لازم ہے نہ کہ لڑائی کرنی۔ اگرچہ اس لڑائی کی بنیاد ایک مذہبی امر پر ہے لیکن اس کا مقصد اپنی مذہبی آزادی حاصل کرنا ہے نہ کہ دوسروں کو جبر و زوردستی اور ہتھیاروں کے زور سے مذہب کا منوانا۔ اگر بندو کسی قوم اس بات پر لڑایں کہ وہ قوم ان کے احکام مذہبی ادا کرنا نہیں دیتی تو کیا یہ کہا جائے گا کہ ہندوؤں نے دوسری قوم کو بجبر اور ہتھیاروں کے اور سے ہندو کرنا چاہا ہے۔ ایک اور امر ہے جو انہی قسم کی لڑائیوں کا ضیمہ ہے یعنی جس ملک یا قوم سے انہی امور کے سبب مضالفت ہے اور لڑائی انہی امور کے سبب مشتہر ہوچکی ہے اس ملک یا قوم پر چھاپہ مارنا یا ان کا اسباب اور ان کی رسد اور ان کے ہتھیاروں کو لوٹ لینا۔ اس زمانہ تہذیب میں بھی کون سی مہذب سے مہذب قوم ہے جو اس فعل کو نا مہذب و ناجائز قرار دے سکتی ہے ؟ اور کون شخص ہے جو اس کو بجبر و زوبردستی ہتھیاروں کے زور سے مذہب کا قبول کروانا قرار دے سکتا ہے۔ تمام لڑائیاں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہوئیں وہ انہی امور پر مبنی تھیں۔ ایک لڑائی بھی اس غرض سے نہیں ہوئی کہ مخالفوں کو زبردستی اور ہتھیاروں کے زور سے اسلام منوایا جائے۔ اس دعوے کا ثبوت دو طرح پر ہو سکتا ہے۔ اول ان احکام سے جو قرآن مجید میں لڑائیں کی نسبت وارد ہیں اور جن سے ظاہر ہوگا کہ لڑائی کا حکم صرف امن قائم کرنے کے لئے تھا نہ کہ زبردستی سے اسلام قبول کروانے کے لئے ۔ دوسرے ان لڑائیوں کے واقعات پر غور کرنے سے جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں واقع ہوئیں۔ چناچہ ہم اب انہیں کے بیان پر متوجہ ہوتے ہیں ، اس کے بعد ایک امر اور بحث طلب باقی رہ جائے گا کہ اے پیغمبر کو اس قسم کی لڑائیاں لڑنا بھی زیبا ہے یا خاموشی سے گردن کٹوا کر اور اپنے سر کو طشت میں رکھوا کر دشمن کے سامنے جانے دینا یا کافروں کے ہاتھوں میں اپنے تئیں ڈلوا کر صلیب پر چڑھنا اور جان دینا۔ چناچہ ہم اس پر بھی اخیر کو بحث کریں گے۔ آیات قرآنی کا بیان جن میں مذہب کی آزادی کا حکم ہے : قرآن مجید کی کسی آیت میں کسی شخص کو زبردستی یا ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے یا اسلام قبول کروانے کا حکم نہیں ہے بلکہ مسلمان کے لئے صرف وعظ و نصیحت کرنے کی ہدایت ہے اور صاف صاف بتلایا ہے کہ اسلام میں جبر و زبردستی نہیں ہو سکتی۔ سورة نحل میں خدا نے فرمایا : ” اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ “ یعنی ( اے پیغمبر ! بلا اپنے رب کی راہ پر پکی بات سمجھا کر اور اچھی نصیحت کر کر اور ان سے بحث کر ایسے طریقہ سے کہ وہ بہت اچھا ہے۔ اور سورة نور میں فرمایا ہے : ” قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ 1ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ 1ؕ وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْا 1ؕ وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ 0054 “ یعنی ” کہہ دے (اے پیغمبر) کہ فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی پھر اگر وہ پھرجائیں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پیغمبر پر وہی ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے ( یعنی ہدایت و نصیحت کے) اور تم پر وہی ہے جو تم پر بوجھ ڈالا گیا ہے ( یعنی یہ سبب نہ قبول کرنے ہدایت و نصیحت کے) اور اگر اس کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور پیغمبر کے ذمہ اور کچھ نہیں ہے مگر حکم کا صاف صاف پہنچا دینا۔ “ اور سورة تغابن میں فرمایا ہے : ” وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ 1ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ 0012 “ یعنی ” فرمابنرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو پیغمبر کی پھر اگر تم پھر جاؤ تو اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہمارے پیغمبر کے ذمہ حکموں کا پہنچا دینا ہے صاف صاف۔ “ سورة ق میں خدا نے فرمایا ہے : ” وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِجَبَّارٍ 1۫ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ (رح) 0045 “ ” یعنی تو ان پر زور کرنے والا نہیں ہے۔ پھر نصیحت کر قرآن سے اس کو جو ڈرتا ہے عذاب کے وعدہ سے۔ “ اور سورة غاشیہ میں فرمایا ہے : ” فَذَكِّرْ 1ؕ۫ اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُذَكِّرٌؕ0021 لَسْتَ عَلَیْهِمْ بِمُصَۜیْطِرٍۙ0022 “ یعنی ” پھر تو ان کو نصیحت کر اس کے سوا کچھ نہیں کہ تو نصیحت کرنے والا ہے اور ان پر کڑوا نہیں ہے۔ “ اور سورة یونس میں فرمایا ہے : ” وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّهُمْ جَمِیْعًا 1ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ 0099 “ یعنی ” اگر تیرا پروردگار چاہے تو بلاشبہ ایمان لے آئیں جو زمین پر ہیں اکٹھے پھر کیا تو زبردستی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ “ اس سے زیادہ وضاحت سے سورة بقرہ میں اسلام میں زبردستی کے ہونے کی نفی فرمائی ہے جہاں فرمایا ہے : ” لَاۤ اِكْرَاہَ فِی الدِّیْنِ 1ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ 1ۚ فَمَنْ یَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى 1ۗ لَا انْفِصَامَ لَهَا 1ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ 00256 “ یعنی ” کچھ زبردستی نہیں ہے دین میں بلاشبہ ظاہر ہوگئی ہے ، ہدایت گمراہی سے پھر جو کوئی منکر ہوا غیر خدا کی پرستش کا اور ایمان لائے اللہ پر بیشک اس نے پکڑ لیا مضبوط ذریعہ جس کے لئے ٹوٹنا نہیں ہے اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا۔ “ مخالفین اسلام یہ حجت پکڑتے ہیں کہ اس قسم کی نصیحتیں آنحضرت ﷺ کی اسی وقت تک تھیں جب تک کہ آپ ﷺ مکہ میں تشریف رکھتے تھے مگر جب مدینہ میں چلے آئے اور انصار اہل مدینہ مسلمان ہوگئے اور مہاجرین اور انصار ایک جگہ جمع ہوگئے اور آنحضرت ﷺ کو بہت بڑء قوت مل گئی اس وقت ان نصیحتوں کو بدل دیا اور لڑنے اور قتل کرنے کا اور تلوار کے زور سے اسلام قبول کرانے کا حکم دیا مگر یہ حجت محض غلط ہے۔ اول تو اس لئے کہ انہیں سورتوں میں سے جن کی آیتوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے سورة یونس اور سورة ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں جبکہ آنحضرت ﷺ کو بخوبی قوت ہوگئی تھی اور انہیں سورتوں میں حکم ہے کہ رسول کا کام صرف حکموں کا پہنچا دینا ہے اور دین میں کچھ زبردستی نہیں ہے۔ پھر یہ کہنا کہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں آنے کے بعد ان نصیحتوں کو بدل دیا تھا صریح جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہنا کہ خدا کے احکام جو بطور اصل اصول کے نازل ہوئے ہیں وہ جگہ کی تبدیلی یا قوت اور ضعف کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہو سکتے۔ خدا کا حکم یہ ہے کہ زبردستی سے کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا پس جب آنحضرت ﷺ مکہ میں تھے اس وقت بھی کوئی شخص زبردستی سے مسلمان نہیں ہو سکتا اور جب آپ ﷺ مدینہ میں تشریف لے آئے تو اس وقت بھی کوئی زبردستی سے مسلمان نہیں ہو سکتا تھا۔ ہاں ! جب آپ مدینہ میں تشریف لے آئے تو لڑائی کا حکم ہوا مگر وہ لڑائیاں لوگوں کے جبر و زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کے لئے نہ تھیں بلکہ امن قائم کرنے کے لئے تھیں جس کو ہم آئندہ بالتفصیل بیان کریں گے۔ آزادی مذہب کی صلح اور معاہدہ کی حالت میں : اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کافروں سے صلح اور معاہدہ کرنے کی اجازت دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ کافروں کے مذہب میں کچھ دست درازی نہ کی جائے وہ اپنے مذہب پر رہیں صرف مسلمانوں کو ایذا نہ دیں۔ ان سے لڑیں نہیں اور ان کے دشمنوں کی مدد نہ کریں اور ان معاہدوں پر قائم رہنے کی نہایت تاکید کی اور معاہدہ کرنے والوں سے جو اپنے معاہدہ پر قائم رہے ہوں لڑنے کی ممانعت فرمائی۔ صلح اور معاہدہ کی اجازت ہی صاف دلیل اس بات کی ہے کہ مذہب کی آزادی میں خلل ڈالنا مقصود نہ تھا اور نہ لڑائی سے کسی کو زبردستی سے اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنا مقصود تھا بلکہ صرف امن کا قائم رکھنا مقصود اصلی تھا۔ سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ کَفِیْلًا 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ 0091 “ یعنی اور پورا کرو تم عہد اللہ ( یعنی جو اللہ کو درمیان میں دے کر عہد کیا ہے) جب تم نے عہد کیا اور نہ توڑو اپنی قسموں کو ان کے مضبوط کرنے کے بعد اور بیشک تم نے اللہ کو کیا ہے اپنا ضامن بیشک اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ خود سورة توبہ میں جس میں نہایت خفگی سے لڑائی کا حکم ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے : ” اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْـًٔا وَّ لَمْ یُظَاہِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ 004 “ ” ہاں ! مشرکوں میں سے وہ لوگ کہ تم نے ان سے معاہدہ کیا تھا ، پھر انہوں نے کسی طرح کی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو پس چاہیے کہ ان کے ساتھ جتنی مدت کے لیے عہد ہوا ہے اتنی مدت تک اسے پورا کیا جائے اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ “ پھر اس سورة میں فرمایا : ” اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 1ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا۠ لَهُمْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ 007 “ ” یعنی جن مشرکوں نے مسجد حرام کے پاس تم سے عہد کیا تھا پھر جب تک کہ وہ تمہارے لئے عہد قائم رہیں تو تم بھی ان کے لئے عہد پر قائم رہو بیشک اللہ دوست رکھتا ہے پرہیز گاروں کو۔ “ اس سے زیادہ معاہدہ کی رعایت کفار اور مشرکین کے ساتھ کیا ہو سکتی ہے جتنی کہ قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ سورة نساء مدینہ میں ہجرت کے بعد اتری ہے اس میں حکم ہے کہ : ” وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا 1ۚ وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًٔا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَّ دِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا 1ؕ فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَ ہُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ 1ؕ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ 1ۚ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَهْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِٞ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ 1ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا 0092 “ ” اور دیکھو کسی مسلمان کو سزاوار نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے مگر یہ کہ غلطی سے اور جس کسی نے ایک مسلمان کو غلطی سے قتل کردیا ہو تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو اس کا خون بہا دے ، اگر مقتول کے وارث خون بہا معاف کردیں تو کرسکتے ہیں اور اگر مقتول اس قوم میں سے ہو جو تمہاری دشمن ہے اگر مومن ہے تو چاہیے کہ ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ صلح ہے تو چاہیے کہ قاتل مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی دے اور ایک مسلمان غلام بھی آزاد کرے اور جو کوئی غلام نہ پائے تو اسے چاہیے کہ لگاتار دو مہینے کے روزے رکھے ، اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف گویا توبہ کے طور پر ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت رکھنے والا ہے۔ “ جن لوگوں سے معاہدہ ہوا ہے اگر معلوم ہو کہ وہ دغا بازی کرنا چاہتے ہیں تو معاہدہ توڑنے کی اجازت دی گئی ہے مگر ایسی احتیاط اور انصاف سے اس کے توڑنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ان لوگوں کس کسی طرح نقصان نہ پہنچ سکے یعنی یہ حکم ہے کہ : وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآىِٕنِیْنَ۠ (رح) 0058 (الانفال : 58) اس طرح مر معاہدہ توڑا جائے کہ دونوں فریق برابری کی حالت پر رہیں اس میں کچھ دغا بازی نہ ہونے پائے کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ عین لڑائی کے زمانہ میں اگر کوئی مشرک کافر پناہ مانگے تو اس کو پناہ دینے کا حکم ہے اور صرف پناہ ہی دینے کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ حکم بھی ہے کہ اس کو اس کے امن کی جگہ میں پہنچا دیا جائے۔ اس سے زیادہ مذہب کی آزادی اور معاہدہ کی احتیاط کیا ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے : وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ 1ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ (رح) 006 (توبہ : 6) اسی بنا پر رسول خدا ﷺ نے مشرکین عرب کے بہت سے قبیلوں سے اور قبائل یہود سے جو مدینہ میں رہتے تھے امن کے معاہدے کئے جو دلیل واضح بات کی ہے کہ مقصود یہ تھا کہ ملک میں لوگ امن سے رہیں ، مسلمانوں کو ایذا نہ دیں اور خدا کے کلام کو سنیں۔ کہا کما قال : ” حتی یسمع کلام اللہ ‘ پھر جس کا دل چاہے ایمان لائے جس کا دک نہ چاہے نہ لائے۔ کما قال اللہ تعالیٰ : ” لَاۤ اِكْرَاہَ فِی الدِّیْنِ 1ۙ۫ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ “ وقال فی موضع اخر ” فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْ “ لڑائی کے احکام اور اس حالت میں بھی آزادی مذہب : سب سے پہلے ہم کو یہ بیان کرنا چاہئے کہ کن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا ہے اور کس مقصد سے۔ ہم اس سے پہلے بالتصریح بیان کرچکے ہیں کہ جو لوگ اپنے معاہدہ پر قائم ہیں اور مسلمانوں سے نہیں لڑتے اور نہ ان کے دشمنوں کو لڑنے میں مدد دیتے ہیں ان سے لڑنے کا حکم نہیں ہے۔ پس لڑائی کا حکم تین قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اول : ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے لڑائی شروع کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں فرمایا ہے کہ : وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ 00190 (البقرہ : 190) فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِیْنَ 00193 (2 : 193) فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ 1۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ 00194 (2 : 194) لڑو اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑیں اور زیادتی مت کرو بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا زیادتی کرنے والوں کو۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اگر وہ لڑنا موقوف کردیں تو دست درازی کرنی نہیں چاہئے کیونکہ دست درازی صرف ظالموں پر کرنی ہے ایک اور جگہ فرمایا کہ جو کوئی تم پر زیادتی مکرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جتنی کہ اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرو اور جان لو اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ قدیم زمانہ سے عرب میں یہ دستور چلا آرہا تھا کہ حرم کعبہ میں جدال و قتال نہیں کرتے تھے اس کی نسبت اللہ نے فرمایا کہ : وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ 1ۚ (2 : 191) لڑائی کی حالت میں ان کو جہاں پاؤ ( حرم کے اندر یا حرم کے باہر) قتل کرو کیونکہ فساد مچانا قتل سے بھی زیادہ ہے۔ مگر اس حکم میں بھی احتیاط کی اور فرمایا کہ : وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى یُقٰتِلُوْكُمْ فِیْهِ 1ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ 1ؕ کَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ 00191 تم مسجد حرام کے پاس ان کو مت مارو جب تک کہ وہ وہاں تم کو نہ ماریں پھر اگر وہ وہاں بھی تم کو ماریں تو تم بھی ان کو مارو یہ ہے کہ بدلا کافروں کا۔ اس کے بعد فرمایا کہ : فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 00192 (2 : 192) اگر وہ ” باز رہیں “ یعنی لڑنا موقوف کردیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے یعنی تم بھی ان کو معاف کردو اور لڑنا موقوف کردو۔ سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ 1ؕ وَ لَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ 00126 (سورۃ نحل آیت 126) اگر تم کافروں کے ایذا پہنچانے کا بدلہ لینا چاہتے ہو تو اسی قدر ایذا کا بدلا لو جس قدر کہ انہوں نے تم کو ایذا پہنچائی ہے اور اگر تم صبر کرو تو بیشک وہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کو۔ پھر سورة حج میں اس سے بھی زیادہ تصریح فرمائی ہے کہ : اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا 1ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُۙ0039 ا۟لَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ 1ؕ (حج : 39) ان لوگوں کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے کفار مکہ لڑتے ہیں اس لئے کہ کفار مکہ کے ہاتھ سے مسلمان مظلوم ہوئے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو بغیر کسی حق کے ان کے گھروں سے نکال دیا ہے اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے۔ سورۃ نسا میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ اِلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ اَوْ جَآءُوْكُمْ حَصِرَتْ صُدُوْرُهُمْ اَنْ یُّقَاتِلُوْكُمْ۠ اَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَهُمْ 1ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَیْكُمْ فَلَقٰتَلُوْكُمْ۠1ۚ فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ 1ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا 0090 (النسا : 90) مگر ہاں ! جو لوگ ، کسی ایسی قوم سے جا ملیں کہ تم میں اور اس میں عہد و پیمان ہوچکا ہو یا ایسے لوگ ہوں کہ لڑائی سے دلبرداشتہ ہو کر تمہارے پاس چلے آئیں ، نہ تم سے لڑیں اور نہ اپنی قوم کے ساتھ لڑیں اگر اللہ چاہتا تو ان لوگوں کو بھی تم پر مسلط کردیتا کہ تم سے لڑے بغیر نہ رہتے ، پس اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوگئے اور جنگ نہیں کرتے نیز صلح کا پیغام بھی بھیج رہے ہیں تو پھر اللہ نے تمہارے لیے کوئی راہ نہیں رکھی کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرو۔ اس کے بعد اسی سورة میں فرمایا ہے کہ : سَتَجِدُوْنَ اٰخَرِیْنَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّاْمَنُوْكُمْ وَ یَاْمَنُوْا قَوْمَهُمْ 1ؕ کُلَّمَا رُدُّوْۤا اِلَى الْفِتْنَةِ اُرْكِسُوْا فِیْهَا 1ۚ فَاِنْ لَّمْ یَعْتَزِلُوْكُمْ وَ یُلْقُوْۤا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ وَ یَكُفُّوْۤا اَیْدِیَهُمْ فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ 1ؕ وَ اُولٰٓىِٕكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا (رح) 0091 (نساء : 91) ان کے علاوہ کچھ لوگ تمہیں ایسے بھی ملیں گے جو تمہاری طرف سے بھی امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنی قوم کی طرف سے بھی لیکن جب کبھی فتنہ و فساد کی طرف لوٹا دیئے جائیں تو اوندھے منہ اس میں گر پڑیں سو اگر ایسے لوگ کنارہ کش نہ ہوجائیں اور تمہاری طرف پیغام صلح نہ بھیجیں اور نہ لڑائی سے ہاتھ روکیں تو انہیں بھی گرفتار کرو اور جہاں کہیں پاؤ قتل کرو ، یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے برخلاف ہم نے تمہیں کھلی حجت جنگ دے دی ہے۔ سورۃ ممتحنہ میں نہایت صفائی سے اور بطور قاعدہ کلیہ کے بیان فرمایا ہے کہ : لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ 008 اِنَّمَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ 1ۚ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ 009 (الممتحنہ : 8 ، 9) کاروں سے کس طرح پیش انا چاہئے اور یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ تم سے لڑے نہیں اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے ان کے ساتھ سلوک اور احسان کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا بلکہ اللہ سلوک کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ صرف ان سے دوسری رکھنے سے منع کرتا ہے جو تم لڑتے ہیں ، تمہارے دین کے سبب سے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال دیا ہے یا نکالنے والوں کی مدد کی ہے۔ ان تمام آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑائی کا حکم کسی کو زبردستی سے اسلام قبول کروانے کے لئے نہیں ہے بلکہ جو لوگ مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان سے لڑتا چاہتا تھے ان سے محفوظ رہنے کے لئے لڑائی کا حکم ہوا ہے اور لڑائی میں یا لڑائی کے موقوف ہوجانے اور امن قائم ہوجانے پر کسی کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض مقصود نہیں ہے۔ مخالفین اسلام چند آیتیں اس امر کے ثابت کرنے کو پیش کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں عموماً کافروں کے قتل کرنے کا حکم ہے اور نیز بجبر ہتھیاروں کے زور سے ان کو مسلمان کرنے کی ہدایت ہے۔ مگر ان کا یہ کہنا محض غلط اور صریح ہٹ دھرمی ہے جس کا بالتفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سورة بقرہ اور سورة نساء میں آیا ہے کہ : وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ اس میں صاف حکم ہے کہ کافر جہاں ملیں وہاں ان کو قتل کرو۔ مگر یہ صریح ان کی غلطی ہے حرم کعبہ میں قتل و قتال زمانہ جاہلیت سے منع تھا مگر جب قریش مکہ سے لڑائی ٹھنی تو اللہ نے حکم دیا کہ ان کو جہاں پاؤ یعنی حرم کعبہ میں یا اس کے باہر ان سے لڑو اور ان کو قتل کرو پس اس آیت سے عموماً کافروں کا قتل کرنا کہاں سے نکلتا ہے خصوصاً ایسی صورت میں کہ قرآن مجید سے انہی سے لڑنے کا حکم ہے جو مسلمانوں سے لڑتے ہوں نہ ان سے کہ جو لڑنا نہیں چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سورة نساء میں صاف حکم ہے کہ جب تک کافر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں نہ چلے آئیں ان کو جہاں پاؤ قتل کر ڈالو۔ کافروں کا مدینہ میں ہجرت کر کے آنا اور مسلمان ہوجانا برابر ہے۔ پس اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوجائیں ان کو جہاں پاؤ مار ڈالو۔ وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِیَآءَ حَتّٰى یُهَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ 1۪ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاۙ0089 (نساء : 89) مگر یہ دلیل محض غلط ہے یہ آیت مکہ کے منافقوں کے حق میں ہے جیسا کہ اس آیت کے اوپر بیان کیا ہے ” فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ “ الخ مکہ کے بہت سے لوگ نفاق سے اپنے تئیں مسلمان کہتے تھے اور مسلمانوں کو تردد تھا کہ ان کے ساتھ لڑائی میں کس طرح کا معاملہ کریں ؟ ان کی نسبت اللہ نے فرمایا کہ ان کا یہ کہنا کہ ہم مسلمان اور تمہارے طرفدات ہیں ہرگز نہ مانو اگرچہ سچے ہیں تو ہجرت کر کے چلے آئیں پھر اگر وہ نہ آئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے اور منافق تھے تو لڑائی میں ان کو بھی جہاں پاؤ حرم کے اندر یا حرم کے باہر مارو اور قتل کرو پس ہجرت کا حکم کسی ایسے شخص کی نسبت جو مسلمان ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تھا نہیں دیا گیا تھا۔ وہ دلیل لاتے ہیں کہ سورة نساء کی بعض آیتوں میں مطلقاً کافروں سے لڑنے کا حکم ہے مگر ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ان آیتوں سے ان کا کیا مطلب ثابت ہوتا ہے۔ بلاشبہ ان آیتوں میں اور بہت سی آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے مگر لڑا بھی انہی لوگوں سے جائے گا جن سے لڑنے کا حکم ہے اور وہ وہی لوگ ہیں جو مسلمانوں سے بخصومت دین لڑتے ہیں۔ علاوہ اس کے ان آیتوں میں بھی کسی کو بجبر اور ہتھیاروں کے زور سے مسلمان کرنے کا اشارہ تک نہیں ہے۔ اسی قسم کی آیتیں سورة تحریم اور سورة فرقان اور سورة توبہ میں بھی آئی ہے جن میں کافروں سے لڑنے اور لڑائی میں ان کے قتل کرنے کا حکم ہے مگر جن لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے انہی سے لڑنے کا حکم ان آیتوں میں ہے نہ عموماً ہر ایک کافر یا عام کافروں سے لڑنے کا۔ پس یہ کہنا کہ ان آیتوں میں لڑنے کا حکم ہے اور اس باتت کو چھپا لینا اور نہ بیان کرنا کہ کن لوگوں سے منجملہ کفار کے لڑنے کا حکم ہے صریحاً ہٹ دھرمی ہے۔ قرآن مجید میں کسی کافر سے بحیثیت کفر اس سے لڑنے کا حکم نہیں ہے صرف تین قسم کے کافروں سے لڑنے کا حکم ہے ایک وہ جو مسلمان سے لڑتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے عہد شکنی کی ہو اور مسلمانوں سے لڑنے والوں کے ساتھ جا ملے ہوں۔ تیسرے وہ جن کے ہاتھ میں مسلمان عورت و مرد و بچے بطور قیدی کے ہوں اور وہ ان کو ایذا پہنچاتے ہوں۔ ایک قسم کو تو ہم ابھی باین کر رہے ہیں اور باقی قسموں کو بھی عنقریب بیان کریں گے پھر کون شخص یا کوئی قوم مہذب سے مہذب اس قسم کی لڑائی کو ناواجب یا ظلم کہہ سکتا ہے اور کیونکر اس قسم کی لڑائیوں کی نسبت کہا جاسکتا ہے کہ وہ بزور شمشیر اسلام قبول کروانے کے لئے کی گئی تھیں۔ چنانچہ ان ارشادات الٰہی کو پڑھو کہ : فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ 1ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا 00 (نساء : 74) فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ 1ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا 1ؕ وَ اللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْكِیْلًا 0084 (نساء : 84) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ 1ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ 1ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ 009 (تحریم : 9) فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ جَاہِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا کَبِیْرًا 0052 (فرقان : 52) قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ ہُمْ صٰغِرُوْنَ (رح) 0029 (توبہ : 29) وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ کَآفَّةً کَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ کَآفَّةً 1ؕ (توبہ : 36) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْكُمْ غِلْظَةً 1ؕ (توبہ : 123) ہاں چند آیتیں ہیں جن پر بحث کرنا ہم کو ضرور ہے۔ سورة بقرہ اور سورة الانفال میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰهِ 1ؕ (البقرہ : 193) کافروں سے لڑو تاکہ فتنہ مٹ جائے اور دین بالکل اللہ کے لئے ہوجائے۔ اور سورة فتح میں فرمایا ہے : قُلْ لِّلْمُخَلَّفِیْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ 1ۚ (الفتح : 16) اے پیغمبر تو ان گنوار عربوں سے جو پیچھے رہ گئے تھے کہہ دے کہ تم ایک سخت لڑنے والی قوم سے لڑنے کو بلائے جاؤ گے پھر تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ ایک جگہ یہ ارشاد ہے کہ : وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّهٗ لِلّٰهِ 1ۚ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ 0039 (الانفال : 39) معترض کہہ دسکتا ہے کہ ان آیتوں سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوجائیں ان سے لڑے جانا چاہئے۔ اول تو یہ کہنا غلط اس لئے ہے کہ ان لفظوں سے کہ : وَّ یَكُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّهٗ لِلّٰهِ 1ۚ کسی طرح یہ مطلب نہیں نکلتا کہ جب تک کافر مسلمان نہ ہوں ان سے لڑے ہی جاؤ کیونکہ ان لفظوں کے صرف یہ معنی ہیں کہ ” دین خدا کے لئے ہوجائے “ یعنی کافروں کی مزاحمت احکام مذہبی کے بجا لانے میں جاتی رہے۔ سورۃ توبہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ : فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ خُذُوْهُمْ وَ احْصُرُوْهُمْ وَ اقْعُدُوْا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ 1ۚ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ 1ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ 005 ( سورة توبہ : 5) مشرکوں کو مارو جہاں پاؤ اور پکڑو ان کو اور گھیرو ان کو اور ان کی گھات میں بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا رستہ چھوڑو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ معترضین کو اس مقام پر نہایت موقع ہے اگر وہ کہیں نماز ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کو مشروط کرنا صاف ایسا ہے جیسے کہ اسلام لانے کو شرط کرنا۔ مگر جب اس کی تفریع پر خیال کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس شرط کو لڑائی سے کچھ تعلق نہیں ہے بلکہ ان کی آمدو رفع کی روک ٹوک موقوف ہونے سے تعلق ہے جب تک کہ وہ کافر تھے بلاشبہ روک ٹوک و خبر گیری کی ضرورت تھی کیونکہ ان سے اندیشہ تھا مگر مسلمان ہونے کے بعد وہ اندیشہ نہیں رہا اس لئے فرمایا کہ : فخلوا سبیلھم ان سب باتوں سے قطع نظر کر کے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان آیتوں میں ان الفاظ سے مسلمان ہوجانا ہی مقصود ہے تو بھی منجملہ اسباب موقوفی لڑائی کے اسلام بھی ایک سبب ہے مگر اس تسلیم کے بھی بجبر و بزور شمشیر کافروں کا مسلمان کرنا لازم نہیں آتا۔ ہم نے بالتفصیل اوپر بیان کیا ہے کفار سے لڑائی کا حکم صرف مسلمانوں کے لئے امن قائم کرنے کا تھا اور وہ امن صرف تین طرح پر قائم ہو سکتا ہے۔ اول : قبل جنگ یا بعد جنگ آپس میں صلح ہونے اور امن کا معاہدہ ہونے سے جس کے کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے جہاں فرمایا ہے : فَاِنِ اعْتَزَلُوْكُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ وَ اَلْقَوْا اِلَیْكُمُ السَّلَمَ 1ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ عَلَیْهِمْ سَبِیْلًا 0090 (نساء : 90) اور خود رسول اللہ ﷺ نے بہت سی کافر قوموں سے امن کے معاہدے کئے ہیں جن کا ذکر آئے گا۔ دوسرے : فتح پانے اور کافروں کا مغلوب ہو کر جزیہ دینا قبول کرنے سے جس کے بعد وہ اپنے دین و مذہب پر بدستور قائم رہتے ہیں جیسے کہ اللہ نے فرمایا ہے : حتی یعطو الجزیہ ع۔۔۔۔۔۔ تیسرے : مسلمان ہوجانے سے پس یہ تینوں صورتیں امن قائم ہونے کی ہیں ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آئے تو لڑائی قائم نہیں رہتی تھی پس ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ لڑائی سے بزور شمشیر کافروں کو مسلمان کرنا مقصود نہ تھا بلکہ صرف امن کا قائم کرنا مقصود تھا۔ دوم : ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے دغا بازی کی ہو اور معاہدوں کو توڑ دیا ہو۔ اللہ نے سورة توبہ میں فرمایا ہے کہ وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ 1ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَنْتَهُوْنَ 0012 (توبہ : 12) اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسم کو توڑ دیں تو جو کفر کے سردار ہیں ان سے لڑو کیونکہ ان کی قسم کچھ نہیں ہے۔ اور ایک جگہ فرمایا ہے کہ : اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ ہَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ ہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ 1ؕ ّتوبہ : 13) کیوں نہیں لڑتے ایسی قسم سے جس نے اپنی قسم توڑ دی اور رسول کو نکالنا چاہا اور ان ہی نے پہل کی۔ اور سورة الانفال میں فرمایا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّةٍ وَّ ہُمْ لَا یَتَّقُوْنَ 0056 فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ 0057 (الانفال : 56۔ 57) ” جن لوگوں کے شامل تم نے عہد کیا ہے پھر انہوں نے ہر دفعہ اپنا عہد توڑ دیا ہے اور پرہیز گاری نہیں کرتے پھر اگر تو ان کو لڑائی میں پائے تو ان کو ایسا مار کہ ان کے پیچھے جو لوگ ہیں متفرق ہوجائیں۔ “ پس معائدہ توڑنے کے بعد ان سے لڑنا امن قائم رکھنے کے لئے ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ معاہدہ کرنا کیونکہ بغیر اس کے نہ امن قائم رہ سکتا ہے اور نہ معاہدہ مگر ایسی حالت میں لڑنا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس سے بزور شمشیر ان کو مسلمان کرنا مقصود ہے اور نہ ایسی لڑائی مہذب سے مہذب قوم کے نزدیک بھی ناواجب ہے۔ سوم : ان لوگوں سے لڑنے کا حکم ہے جنہوں نے مسلمانوں کو اور ان کے بچوں اور عورتوں کو عذاب میں اور تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔ اس کا ذکر سورة نساء میں ہے جس کو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں اور ترتیب قائم رکھنے کے لئے اس آیت کو دوبارہ لکھتے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ : وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا 1ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا 1ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ0075 (نسا : 75) ” اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ؟ (جب کہ انہوں نے تم سے جنگ شروع کردی ہے) حالانکہ کتنے ہی بےبس مرد ہیں ، کتنی ہی عورتیں ہیں ، کتنے ہی بچے ہیں جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے جہاں کے باشندوں نے ظلم پر کمر باندھ لی ہے (یعنی مکہ سے) نجات دلا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا دوست بنا دے اور کسی کو ہماری مددگاری کیلئے کھڑا کر دے “ کیا یہ انسانیت اور رحم کی بات نہیں ہے کہ لاچار بےبس مسلمانوں مرد ، عورتوں اور بچوں کو کافروں کے ظلم سے بچایا جائے اور ان کی فریاد رسی کے لئے ہتھیار اٹھائے جائیں۔ کون شخص ہے جو اس لڑائی کو ناواجب کہہ سکتا ہے۔ اب ہم ان واقعات کا ذکر کرتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں واقع ہوئے تھے اور غزوہ اور سر یہ کے نام سے مشہور ہیں اور یہ بات دکھلاتے ہیں کہ کوئی غزوہ یا سر یہ اس مقصد سے نہیں ہوا تھا کہ بجبر و بزور شمشیر لوگوں کو مسلمان کیا جائے بلکہ ہر ایک غزوہ یا سر یہ کا کوئی سبب انہی اسباب میں سے تھا جن کی تفصیل ہم نے ابھی بیان کی ہے۔ ہم نے ان عزو وں اوبر سریوں اور ان کے مقاموں کا حال ان کتابوں سے جن کا نام اس مقام پر لکھتے ہیں اخذ کیا ہے۔ سیرت ہشامی ، کامل ابناثیر جزری ، مواہب لدنیہ ، علامہ قطسامانی ، ابن خلدون مغربی ، تاریخ اسماعیل ابو الفداء ، مراصد الاطلاع ، سیرت ابن اسحٰق ، مغازی واقدی ، مشترک یا قوت حموی ، فتوح البلدان ، تاریخ یافعی ، سیرت المحمدیہ مولوی کرامت علی ، معجم البلدان ، زاد المعاد ابن القیم ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم۔ ان کتابوں میں ان لڑائیوں کے زمانہ میں اختلاف ہے کوئی واقعہ کسی لڑائی کا کسی سنہ میں اور کوئی کسی سنہ میں بیان کرتا ہے اور ہم کو کچھ چارہ نہیں ہے بجز اس کے کہ ان میں سے ایک سلسلہ اختیار کرلیں۔ ان واقعات کے سنہ بیان کرنے میں محرم سے سال کی تبدیلی نہیں قرار دی گئی ہے بلکہ واقع زمانہ ہجرت سے برس کا شمار کیا گیا ہے۔ ان واقعات کا ہم نہایت مختصر طور پر بیان کریں گے اور صرف اس قدر واقعات کا ذکر کریں گے جس سے معلوم ہوا کہ ان لڑائیوں کا کیا سبب تھا آیا ان سے بزور شمشیر اسلام قبول کروانا مقصود تھا یا صرف امن کا قائم رہنا اور دشمنوں کے حملوں کو روکنا۔ ہم نے تمام واقعات کو جن پر مورخین نے سریہ غزوہ کا اطلاق کیا ہے بالاستیعاب اس مقام پر ذکر کیا ہے حالانکہ ان میں سے ایسے بھی واقعات ہیں جو نہ سیر یہ تھے نہ غزوہ مگر ہم نے ان کو بھی اس لئے لکھ دیا تاکہ یہ خیال نہ کیا جائے کہ ہم نے کسی واقعہ کو چھوڑ دیا ہے۔ 1۔ سریہ سیف البحر رمضان 1 ہجری : سیف البحر ، یعنی ساحل البحر ، یہ ایک جگہ بحر فارس کے کنارہ پر بنی زہیر کے متعلق جو سامہ بن لوی بن غالب کے قبیلہ سے ہیں۔ اس سریہ میں کل تیس سوار تھے اور حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم اس کے سردار تھے اور ان کو آنحضرت ﷺ نے نشان بھی عنایت کیا تھا۔ جب یہ لوگ سیف البحر میں پہنچے تو ابو جہل بن ہشام مکہ والوں کے تین سو سوار لئے ہوئے ملا۔ مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی ۔ مجدی بن عمرو الہنی بیچ میں پڑا اور لڑائی نہ ہونے دی۔ ظاہر ہے کہ تیس سواروں کا بھیجنا کسی سے لڑنا یا حملہ کے لئے نہیں ہو سکتا۔ مگر ایسی قلیل جماعت کا خبر رسانی کے لئے اور مکہ کے لوگوں کے ارادہ کی تفتیش کرنے کے لئے جو ایک ضروری امر تھا بھیجنا ممکن ہے چناچہ وہ نتیجہ حاصل ہوا اور مکہ کے لوگوں کی آمادگی اور حملہ آوری کی نیت کی خبر ملی۔ 2۔ سر یہ رابغ شوال 1 ہجری : رابغ۔ ایک میدان ہے درمیاں ابواء اور جحفہ کے۔ اس سریہ میں ساٹھ یا اسی سوار تھے اور عبداللہ بن الحارث اس کے سرادر تھے اور ان کو بھی آنحضرت ﷺ نے نشان عنایت کیا تھا۔ جب یہ لوگ ثنیۃ المرہ میں پہنچے تو وہاں قریش کا لشکر بسر واری عکرمہ بن ابی جہل یا مرکز بن حفض موجود تھا۔ اس لشکر میں مقداد بن عمرو ، حلیف بن زہرہ اور عتبہ بن غزوان حلیف بن نوفل جو دل سے مسلمان تھے موجود تھے اور موقع پا کر مسلمانوں کے لشکر میں چلا آئے۔ غالباً اسی سبب سے لڑائی نہیں ہوئی کیونکہ اگر ہوتی تو قبائل بنی زہرہ اور بنی نوفل جو مقدار اور عتبہ کے حلیف تھے قریش سے برگشتہ ہوجاتے۔ یہ سریہ خواہ بقصد دریافت حالات اہل مکہ بھیجا گیا ہو یا با ارادہ مقابلہ لشکر قریش کے مگر حملہ آوری کے طور پر بھیجنا کسی طرح قرار نہیں پا سکتا ، انتہا یہ ہے کہ قریش کے حملہ کے روکنے کے لئے جو امن قائم رہنے کے لئے لازمی تھا بھیجا گیا تھا۔ 3۔ سریہ خرار ذیقعد 1 ہجری : خرار حجفہ کے نزدیک ایک مقام ہے جس کا یہ نام ہے۔ اس سریہ میں اسی آدمی مہاجرین میں سے ت تھے اور سعد بن ابی وقاص ان کے سردار تھے۔ ان کو کہیں کسی دشمن کا پتا نہیں ملا اور خرار تک جا کر واپس آگئے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ صرف خبر رسانی کی غرض سے روانہ ہوئے تھے۔ 4۔ غزوج ودان یا غزوہ ابواء صفر 1 ہجری : دوان ، فعلان کے وزن پر ایک بستی مکہ و مدینہ کے درمیان فع کی طرف حجفہ کے پاس تھی ہر شی وہاں سے چھ میل اور ابواء آٹھ میل تھا۔ ابواء۔ فرع کے متعلقات سے ہے اور وہاں حضرت آمنہ ، آنحضرت ﷺ کی والدہ کی قبر ہے۔ کود آنحضرت ﷺ اس سفر میں تشریف لے گئے اور بنی ضمرہ بن بکر بن عبد مناف بن کنانہ سے جن کا سردار محشی بن عرمو الضمیری تھا اس بات پر معاہدہ کیا کہ وہ نہ آنحضرت ﷺ کی مدد کریں گے نہ قریش مکہ کی۔ یہ معاہدہ کر کے آ نحضرت ﷺ واپس تشریف لے آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ والوں کو قریش مکہ کے حملہ کا کس قدر خوف تھا۔ 5۔ غزوہ یواغ ربیع الاول 2 ہجری : یواط۔ ایک پہاڑ ہے بہنیہ کے پہاڑوں میں رضوی کے پاس۔ خود آنحضرت ﷺ نے سفر فرمایا اور رضوی کی طرف سے بواط میں ہو کر واپس تشریف لے آئے۔ یہ صرف ایک سفر تھا خواہ اس سے مقصد لوگوں میں وعظ کرنا ہو یا قریش مکہ کے ارادوں کا پتہ لگانا یا دونوں۔ 6۔ غزوہ سفوان یا بدر اولیٰ ربیع الاول 2 ہجری : سفوان۔ بدر کے پاس ایک میدان ہے سفوان اس کا نام ہے۔ بدر۔ ایک چشمہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان وادی صفراء کے اخیر میں واقع ہے اور وہاں سے سمندر کا کنارہ ایک رات کا راستہ ہے۔ کزر بن جابر الفہری نے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ لئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے بذات خاص ان کا تعاقب کیا اور سفوان تک تشریف لے گئے مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔ 7۔ غزوہ ذی العشیرہ جمادی الاخر 2 ہجری : ذوالعشیرہ۔ ایک جگہ ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان ینبع کی طرف اور بعضوں نے کہا ہے کہ وہاں ایک چھوٹا سا قلعہ بھی ہے۔ خود آنحضرت ﷺ نے سفر کیا اور بنی مدلج اور ان کے حلیف بنی ضمرہ سے امن کا معاہدہ کر کے واپس تشریف لے آئے۔ اس سفر میں ایک رات حضرت علی ؓ زمین پر سو رہے تھے ، آنحضرت ﷺ نے ان کو جگایا اور حضرت علی ؓ کو مٹی میں بھرا ہوا دیکھ کر فرمایا : ” ما لک یا ابو تراب “ جب سے علی ؓ کا لقب ” ابو تراب “ ہوگیا۔ ۔ سریہ نخلہ رجب 2 ہجری : نخلہ۔ جس کو نخلہ محمود بھی کہتے ہیں ایک جگہ ہے مکہ کے پاس درمیان مکہ و طائف کے۔ وہاں کھجور اور انگور بہت ہوتے تھے اور وہ پہلی منزل سے مکہ سے۔ اس سریہ میں جہاں مہاجرین میں اس آدمی تھے اور ان کے سردار عبداللہ بن حجش تھے اور مکہ کے قریب بھیجے گئے تھے۔ یہاں جان جانے کا نہایت اندیشہ تھا اور صرف قریش مکہ کے ارادوں کی خبر لینے کو بھیجے گئے تھے اور آنحضرت ﷺ نے ایک پرچہ پر لکھ دیا تھا کہ : ” امض حتی تنزل نخلۃ فتر صدبھا قریشا و تعلم لنا من اخبارھم۔ “ جب یہ لوگ نخلہ میں پہنچے تو اتفاقاً قریش ایک قافلہ مال تجارت لے کر آپہنچا۔ عبداللہ بن حجش نے ان پر حملہ کیا اور واقد بن عبداللہ کے تیر سے قافلہ میں عمرو بن الحضری مارا گیا اور عثمان بن عبداللہ اور حکم بن کیسان قید ہوگئے۔ جب عبداللہ بن حبش لوٹ کا مال اور قیدیوں کو لے کر مدینہ میں آئے تو آنحضرت ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم کو لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور قیدیوں کو سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کے واپس آنے پر جو پیچھے رہ گئے تھے چھوڑ دیا اور عمرو بن الحضرمی کی دیت یعنی خون بہا اپنے پاس سے ادا کیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سریوں کے بھیجنا سے صرف قریش کے ارادوں کا حال دریافت کرنا مقصود تھا نہ کہ لڑنا اور کسی پر حملہ کرنا۔ 9۔ غزوہ بدر الکبریٰ رمضان 2 ہجری : اس غزوہ کا حال ہم سورة انفال کی تفسیر میں مفصل لکھ چکے ہیں اور اس میں بتایا ہے کہ یہ غزوہ قریش کے قافلہ کے لوٹنے کے لئے جو شام میں آتا تھا نہیں ہوا تھا بلکہ قریش مکہ جو لشکر جمع کر کے حملہ کے ارادہ سے نکلے تھے اس کے دفع کرنے کے لئے ہوا تھا لیکن اگر اس مقام پر اسی بات کو تسلیم کرلیں کہ قافلہ ہی کے لوٹنے کو حملہ ہوا تھا تو بھی کچھ الزام نہیں ہو سکتا۔ جس قدر کہ حالات اوپر لکھے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریش مکہ مدینہ والوں کے پورے دشمن تھے اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کے موقع کو دیکھ رہے تھے اور حملہ کر کے مدینہ والوں کے مویشی لوٹ چکے تھے پس اگر مدینہ والوں نے اس خیال سے کہ مکہ کے دشمنوں کو زیادہ قوت نہ ہوجائے ان کے اسباب کو لوٹ لینا چاہتا تو کیا الزام ہو سکتا ہے دو قوموں میں دشمنی جب اعلانیہ ہوجائے جو بمنزلہ اشتہار جنگ کے ہے اور ہر ایک آمادہ جنگ ہو تو ایسے اموت کا مرتکب ہونا کسی طرح خلاف اخلاق یا خلاف قدرتی قانون اقوام کے نہیں ہے۔ مگر ہمارا یہ بیان بطریق تنزل کے ہے کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ یہ غزوہ قافلہ کو لوٹنے کے لئے نہ تھا۔ 10۔ سریہ عرمو بن عدی الحظمی رمضان 2 ہجری : 11۔ سریہ عام بن عمرو شوال 2 ہجری : تعجب ہے کہ علامہ قسطنطانی (رح) نے ان دونوں واقعوں کو سریہ کر کے لکھا ہے حالانکہ نہ وہ سریہ تھے ، نہ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں میں سے کسی کو کہیں بھیجا تھا۔ عمر بن عدی نے ازخود ایک عورت عصماء بنت معروان کو جو جورو یزید بن اخظمی کی تھی اور اس کی رشتہ دار تھی رات کو مار ڈالا اور سالم بن عمیر نے ایک بڈھے یہودی کو مار ڈالا۔ یہ ایک معمولی واقعات ہیں جو دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ان کو اس خیال سے کہ دو کافر مار گئے سر یہ میں داخل کرنا محض غلطی ہے بالفرض اگر پہلے واقعہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو ہوئی اور اس پر کچھ مواخذہ نہیں کیا جس کے کچھ اسباب ہوں گے تو بھی اس کو سریہ قرار نہیں دیا سکتا۔ 12۔ سریہ بنی قینقاع شوال 2 ہجری : بنی قینقاع ، یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں رہتے تھے اور ایک بازار ان کے نام سے موسوم تھا اور سوق بنی قینقاع کہلاتا تھا۔ ان سے بھی امن کا معاہدہ تھا مگر جب بدر کی لڑائی ہوئی تو انہوں نے اظہار بغاوت کیا۔ اسی درمیان میں ایک مسلمان عورت سے جو سوق بنی قینقاع میں ایک کام کو گئی تھی نالائق طور پر ہنسی کی اور کا کپڑا اٹکا کر اس کا ستر عورت کھول ڈالا۔ اس پر ایک مسلمان غصہ میں آیا اور اس یہودی کو جس نے عورت کو بےستر کیا تھا مار ڈالا۔ یہودیوں نے مسلمان کو گھیر کر مار ڈالا اس پر یہودیوں اور مسلمانوں میں نزاع قائم ہوگئی۔ ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اس وقت ہوئے ہیں جب آنحضرت ﷺ بدر کی لڑائی میں مصروف تھے۔ جب آنحضرت ﷺ واپس تشریف لائے تو ان یہودیوں نے اعلانیہ معاہدہ توڑدیا اور عہد نامہ واپس بھیج دیا۔ اس واقعہ پر آنحضرت ﷺ نے بنی قینقاع کے محلہ کا محاصرہ کرلیا۔ کیا عجیب ہے کہ اس محاصرہ میں کسی سے کچھ لڑائی بھی ہوئی ہو۔ لیکن ضرور تھا کہ قبل شروع کرنے لڑائی کے بطور قطع حجت ان کو دعوت اسلام کی جائے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے سب کو گھیر کر فرمایا کہ تم اسلام قبول کرو ورنہ تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو بدر والوں کا ہوا۔ اس پر انہوں نے سخت کلامی سے جواب دیا۔ مگر عبداللہ بن ابی ابن سلول درمیان میں پڑا اور یہ ٹھہرا کہ یہودی مدینہ سے واپس چلے جائیں چناچہ عبادہ بن صامت ان کی حفاظت کو متعین ہوئے اور وہ لوگ بامن وامان معہ مال و اسباب مدینہ سے چلے گئے ، ان کے ہتھیار لے لئے گئے اور زمینیں ضبط کرلی گئیں اور وہ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہوئے۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ 13۔ غزوۃ السویق ذوالحجہ 2 ہجری : یعنی جس حملہ میں قریش مکہ اپنی خوراک کے لئے ستو اپنے ساتھ لائے تھے۔ ابو سفیان دفعۃً دو سو سوار لے کر رات کو خفیہ مدینہ میں آیا اور سلام بن مشکم یہودی قبیلہ بنی نصیر سے ملا اور مسلمانوں کے حالات کی جاسوسی کر کے چلا گیا۔ مکہ پہنچ کر قریش مکہ کی ایک جماعت مدینہ پر بھیجی اور مدینہ کے ایک محلہ پر جس کا نام عریض ہے آپڑی اور اس نواح کے باغوں کو جلا دیا اور ایک مسلمان انصاری کو اور ایک مکہ کے رہنے والے اس کے حلیف کو مار ڈالا۔ زاد المعار میں خود ابو سفیان کی نسبت درختوں کا جلانا اور انصار کا قتل کرنا لکھا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے کچھ آدمی کے لے کر ان کا تعاقب کیا اور قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے مگر کوئی ہاتھ نہیں آیا۔ 14۔ غزوۃ قرقرۃ الکدر یا غزوہ بنی سلیم محرم 3 ہجری : قرقرۃ الکدر۔ ایک چشمہ کا نام ہے جہاں یہود بنی سلیم رہتے تھے مدینہ سے آٹھ منزل ہے۔ بعض اسباب سے آنحضرت ﷺ نے اس طرف تشریف لے جانا مناسب سمجھا اور آپ قرقرۃ الکدر تک تشریف لے گئے اور تین دن وہاں قیام فرمایا مگر کسی سے مقابلہ یا لڑائی نہیں ہوئی۔ 15۔ سریہ عبداللہ بن انیس محرم 3 ہجری عبداللہ بن انیس نے آنحضرت ﷺ سے یہ بات سنی کہ سفیان بن خالد ہذلی نے عربہ وادی عرفہ میں کچھ لوگ آنحضرت ﷺ سے لڑنے کے لئے جمع کئے ہیں یہ سن کر وہ مدینہ سے غائب ہوگیا اور سفیان کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہا کہ میں بنو خزاعہ کا ایک شخص ہوں میں نے سنا ہے کہ تم نے محمد ﷺ سے لڑنے کو لوگ جمع کئے ہیں میں بھی تمہارے ساتھ ہونا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا اچھا آؤ ۔ عبداللہ بن انیس تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلے اور اس کو دھکا دے کر مار ڈالا اور اس کا سر کاٹ کر انحضرت ﷺ کے پاس لے آئے مگر کسی کتاب میں یہ بات نہیں لکھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس کو ایسا کرنے کو کہا تھا۔
Top