Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 16
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
اَمْ حَسِبْتُمْ : کیا تم گمان کرتے ہو اَنْ : کہ تُتْرَكُوْا : تم چھوڑ دئیے جاؤگے وَلَمَّا : اور ابھی نہیں يَعْلَمِ اللّٰهُ : معلوم کیا اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَمْ يَتَّخِذُوْا : اور انہوں نے نہیں بنایا مِنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا رَسُوْلِهٖ : نہ اس کا رسول وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ : اور نہ مومن (جمع) وَلِيْجَةً : راز دار وَاللّٰهُ : اور اللہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا تَعْمَلُوْنَ : اس سے جو تم کرتے ہو
کیا تم نے ایسا سمجھ لیا ہے کہ تم اتنے ہی میں چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے ان لوگوں کو پوری طرح ظاہر ہی نہیں کیا کہ کون ہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا پوشیدہ دوست نہیں بنایا اور جیسے کچھ تمہارے اعمال ہیں اللہ ان سب کی خبر رکھنے والا ہے
نئے مسلمانوں سے خطاب کہ تم کو بھی اب بغیر آزمائش نہیں چھوڑا جائے گا : 21: اس سنت اللہ کا بیان کہ یہاں جو بھی آتا ہے اس کی ہر طرح سے آزمائش کی جاتی ہے۔ پہلے ایمان لانے والوں کی آزمائش دکھ اور مصیبت میں مبتلا کر کے کی گئی جس امتحان میں کامیابی کے ناطے سے تم کو حکومت و سرداری مل گئی اور مشرکین کو تہس نہس کردیا گیا اب تمہارا امتحان سابقون الاولون کی قربانیوں کے نتیجہ میں حکومت و سرداری دے کر کیا جا رہا ہے اس لئے جب تک تم بھی اس آزمائش سے گزر کر یہ ثابت نہ کردو گے کہ واقعی تم اللہ اور اس کے رسول اور دین اسلام کو اپنی جان و مال اور اپنے بھائی بندوں سے جو ابھی تک مکہ میں ہیں اور ہجرت کر کے مدینہ نہیں آتے اور نہ ہی ہجرت کے ختم ہونے کا ابھی اعلان ہوا بڑھ کر عزیز رکھتے ہو اس وقت تک تم کو سچے مومن قرار نہیں دیا جاسکتا 0 یہ اعلان براءت گویا وہ کٹھیالی ہے جس میں ڈال کر کھرے اور کھوٹے مسلمانوں کو الگ الگ کردیا جائے گا۔ اس وقت تک تو تمہاری پوزیشن یہ ہے کہ اسلام چونکہ مومنین صادقین اور سابقین اولین کی جاں فشانیوں سے غالب آگیا اور ملک پر چھا گیا اس لئے تم مسلمان ہوگئے۔ زیر نظر آیت کی عبارت خود بتا رہی ہے کہ یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے تھے اور ابھی تک ان کو کسی آزمائش میں مبتلا نہیں کیا گیا تھا۔ ہاں ! ان کی آزمائش کا پورا وقت چونکہ قریب آرہا تھا اور مکہ فتح ہونے ہی والا تھا جس کے بعد مشرکین سے عام بیزاری کا اعلان کیا گیا لہٰذا ان نئے مسلمانوں کو آزمائش سے قبل چوکنا کیا جا رہا ہے کہ خبردار ! آنے والا وقت تمہارے اسلام کی صداقت کو واضح کردے گا اس لئے خیال رہے کہ کہیں تمہارے قدم ڈگمگا نہ جائیں و۔ رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو ایک خصوصی ہدایت : 22: اور مزید بعد میں آنے والوں کو بھی آگاہ کردیا کہ مسلمانو ! اچھی طرح سن لو اور یاد رکھو کہ اہل اسلام کے سوا کسی دوسرے کو وَوَلِیْجَةً 1ؕ محرم راز ، دوست اور معتمد نہ بنانا۔ یہ اعلان رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لئے ایک کسوٹی ہے جو ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتا از کرتی رہے گی کہ کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور ایسے بےلاگ ہیں کہ انہیں اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کے سوا کسی کی دوستی اور قرابت کی کوئی پروا نہیں اور کون لوگ دوسروں کی خاطر اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو نظر انداز کردینے والے ہیں۔ یہ امتحان ایک سنت اللہ ہے جس سے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو لازماً گزرنا پڑتا ہے اور اس وقت ہم بھی اسے گزر رہے ہیں اس لئے ہمارے سارے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کو اگر وہ سچے مسلمان ہیں تو غور کرنا چاہئے کہ کیا ہم اس امتحان میں کامیاب ہوتے جا رہے ہیں یا ہمارا ہر قدم ناکامی کی طرف اٹھ رہا ہے ؟ اور دن بدن ہم کامیابی کی راہ سے دور ہی ہوتے چلے جا رہے ہیں ؟ ہم پر تو یہ فتویٰ ہے کہ ہم تفسیر بالرائے کر کے دوزخ کا ایندھن بن رہے ہیں لیکن یہ فتویٰلگانے والوں کو کبھی اپنے متعلق بھر غور کرنا چاہئے کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جو امتحان کی اس کسوٹی پر پرکھ کر غث و سمین کو نایاں اور اہل ایمان کی تطہیر کرتا رہتا ہے اگر کسی کو گمان یہ ہے کہ آزمائش انہی لوگوں کے لئے تھی جو صدر اول میں موجود تھے اور ہم خالی امتحان کے دعویٰ ہی پر چھوڑ دیئے جائیں گے تو یہ خیال ایسا ہی ہے جیسے گدھے کے سر پر سینگ۔ اس جگہ یہ بات خاص طور پر نگاہ میں رہے کہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کا ذکر ایک ہی ساتھ ہوا ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس میں کسی تقسیم کی گنجائش نہیں ہے جو شخص اللہ کا وفادار ہونے کا مدعی ہے اس پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اس کے رسول اور اس کے ایمان لانے والوں کا بھی اپنے آپ کو وفادار ثابت کرے۔ اگر کوئی شخص اہل ایمان کے مقابلہ میں کسی اور کو اپنا دوست اور معتمد بناتا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا بھی ساتھی نہیں ہے اگرچہ وہ کتنی ہی بلند آستگی سے اس کا دعویٰ کرے اور کسی بھی مسلمانوں کے گروہ کا قائد و رہنما اور امیر و ناظم اپنے آپ کو سمجھے۔ جب سے یہ ملک تقسیم ہوا اس وقت سے لے کر جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام حکومت آتی تہی ان کا فرض تھا کہ وہ اس پر غور کرتے اور آج جن ہاتھوں میں حکومت ہے ان کا فرض ہے کہ وہ غور کریں اور آنے والے کل جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت جائے گی ان پر بھی فرض عائد ہوگا کہ وہ اس کا خیال کر کے اپنے متعلق خود فیصلہ کرلیں کیونکہ حکومت بدلتی آئی ہے ، بدلتی رہے گی لیکن کسوٹی نہ کبھی بدلی اور نہ ہی اب اس کے بدلنے کا کوئی امکان ہے۔ زیر نظر آیت کے مضمون کی مزید تشریح آیت 43 ، 44 میں آرہی ہے اور پیچھے تفسیر عورۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 118 میں گزر چکی ہے۔
Top