Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
جن مشرکوں کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے
التوبہ سورۃ کا نام : اس سورة کا نام ” التوبہ “ ہے جو اس سورت کی آیت 104 سے لیا گیا ہے۔ اس نسبت سے کہ اللہ کے سوا کون ہے جو توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ یہ سورت بھی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس کا نزول نمبر 113 ہے اور ترتیب نمبر 9۔ اس سورت میں 16 رکوع ہیں اور 129 آیات کریمات ہیں۔ اس سورت میں 2537 کلمات اور 11360 حروف ہیں۔ موضوع سورة : توبہ کے معنی لوٹانا اور پلٹنا ہے۔ اس سورت میں بعض اہل ایمان کی توبہ کا ذکر بھی کیا گیا اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تو وہ کو قبول کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس سورة کو سورة ” البراءۃ “ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے اور براءۃ کے معنی بیزاری اور بری الذمہ کے ہیں چونکہ سورة کے آغاز ہی میں مشرکین سے بری الذمہ ہونے یا بیزار ہونے کا اعلان کیا گیا ہے اس لئے یہ سورة سورة ” البراءۃ “ کے نام سے بھی معروف ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین مکہ کی طرف سے عہد کی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان براءۃ ہوا اور پھر جنگ تبوک پر بعض اہل ایمان سے سستی ہوئی جس پر ان کو گرفت کی گئی اور پھر کچھ عرصہ یا کچھ دنوں کے بعد ان کو معاف کردیا گیا اور یہی واقعات اس سورة کا شان نزول قرار دیئے گئے۔ چنانچہ اس سورة کی آیت 1 سے 29 تک اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان اور آئندہ سے انہیں بیت اللہ کے قریب نہ آنے دینے اور مسجد کی تعمیر اور نگرانی کے لئے ایمان کامل کو لازمی قرار دیئے جانے اور اس کے ساتھ ساتھ ہجرت کرنے والے مومنین کی فضلتن اور جنگ حنین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ آیر 30 سے 37 تک یہود و نصاریٰ کا پیغمبروں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے اور سال و مہینوں میں اپنی مرضی سے رد و بدل کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور آیت 38 سے آیت 42 تک جنگ تبوک کے لئے مسلمانوں کی سستی پر تنبیہ اور غار ثور میں صدیق اکبر ؓ اور نبی اعظم و آخر ﷺ کی رفاقت کا تذکرہ ہے۔ آیت 43 سے 59 تک منافقوں کے جنگ تبوک سے رہ جانے کی اجازت دینے پر نبی اعظم و آخر ﷺ سے ایک طرح کا استفسار کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو کیوں اجازت دی اور تفصیل سے منافقوں کی حرکتیں بیان کی گئی ہیں۔ آیت 60 سے 72 تک زکوٰۃ کے مصارف اور منافقین کی مذمت اور مومنوں کی تعریف جہاد کرنے کا بیان ہے اور ساتھ ہی منافقوں کی سازشیں بھی بےنقاب کی گئی ہیں۔ آیت 73 سے 99 تک جہاد کرنے کی ترغیب ہے اور منافقین کی سازشوں کا بیان ہے۔ آیت 100 سے 118 تک صحابہ ؓ کی توبہ کا ذکر کیا گیا ہے جو جنگ تبوک سے رہ گئے تھے اور آیت 119 سے 129 تک جہاد کی فضیلت ، علم کی فضیلت اور نبی کریم ﷺ کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے اور اس مضمون پر سورة ختم ہوگئی ہے۔
Top