Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 20
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَ : اور اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں اَعْظَمُ : بہت بڑا دَرَجَةً : درجے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ هُمُ : وہ الْفَآئِزُوْنَ : مراد کو پہنچنے والے
جو لوگ ایمان لائے ، ہجرت کی اور اپنے دل اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی ہیں جو (آخرت میں) کامیاب ہونے والے ہیں
اللہ کے نزدیک درجات میں بڑے کون لوگ ہیں ؟ 31: اس آیت میں ایک بار پھر واضح کردیا کہ اللہ کے نزدیک بزرگی و فضیلت کا معیار کیا ہے ؟ فرمایا سب سے بڑا درجہ انہی کا ہے جنہوں نے سچائی کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں کیں اور ایمان و عمل کی آزمائش میں پورے اترے ، تمہارے گھڑے ہوئے تقدس و بزرگی کی مناسب اور رواجی برائیاں اور بزرگیاں اللہ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کل مسلمانوں کی عام مذہبی ذہنیت کس درجہ اسلام سے دور ہوگئی ہے۔ جاہلیت عرب کی طرح وہ بھی رواجی نیکیوں کو حقیقی اسلامی نیکیوں پر ترجیح دینے لگے ہیں ایک فاسق و فاجر امیر محرم میں سبیل لگا دیتا ہے یا ربیع الاول میں دھو دھام سے جشن میلاد میں اپنے ہاتھی ، گھوڑوں اور مشعلوں کے ساتھ شریک ہوجاتا ہے یا کسی مسجد ، درس گاہ اور خانقاہ اور مزار پر بجلی کی روشنی کرا دیاتا ہے تو تمام مسلمان اس کی حمد و ثنا کا غلغلہ مچا دیتے ہیں اور علمائے اسلام کے نام سے یاد کئے جانے والے اپنے خطبوں اور وعظوں میں اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ایمان و عمل اور ایثار فی سبیل اللہ کا کیا حال ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ رواجی نیکیاں اللہ کے نزدیک نیکیاں نہیں ہیں نیکی کا معیار صرف ایمان و عمل صالح اور ایمان و عمل صالح کی راہ میں ایثار ہے۔
Top