Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 29
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ۠   ۧ
قَاتِلُوا : تم لڑو الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یومِ آخرت پر وَلَا يُحَرِّمُوْنَ : اور نہ حرام جانتے ہیں مَا حَرَّمَ : جو حرام ٹھہرایا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَلَا يَدِيْنُوْنَ : اور نہ قبول کرتے ہیں دِيْنَ الْحَقِّ : دینِ حق مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) حَتّٰي : یہانتک يُعْطُوا : وہ دیں الْجِزْيَةَ : جزیہ عَنْ : سے يَّدٍ : ہاتھ وَّهُمْ : اور وہ صٰغِرُوْنَ : ذلیل ہو کر
اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ نہ تو اللہ پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر ، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے کتاب الٰہی میں حرام ٹھہرایا ہے اور نہ ہی سچے دین پر عمل پیرا ہیں تو ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو
اہل کتاب کی مذہبی اور سیاسی حالت اور ان کے جرائم کا تذکرہ : 42: مشرکین کے بعد اب اہل کتاب کہلانے والے یہود و نصاریٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ اللہ کو مانتے ہیں اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں۔ آسمانی کتب اور انبیائے کرام (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں اور آخرت پر ان کا پختہ یقین ہے لیکن ان کا عمل ان کے اس سارے دعویٰ کی تکذیب کرتا ہے۔ اس لئے اب ان کے اس زبانی دعویٰ کا کچھ اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور نہ ہی آخرت پر ان کو کچھ یقین ہے اور نہ ہی ان چیزوں کو وہ حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور یہ حرام ٹھہرانا ان کی اپنی آسمانی کتابوں میں موجود ہے اور نہ ہی ان کا ایمان انبیائے کرام (علیہم السلام) کی لائی ہوئی ہدایات پر ہے اور اسی طرح وہ سچے دین کو بھی قبول نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم سے جو معلوم ہوتا ہے وہ تو یہی ہے کہ یہودونصاریٰ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں اور قیامت کے بھی قائل ہونے کا اقرار کرتے ہیں پھر ان چیزوں سے ان کے ایمان کی نفی کیسے کی گئی ؟ حقیقت یہ ہے کہ محض دعویٰ کبھی درست نہیں ہوتا جب تک اس دعویٰ پر دلیل موجود نہ ہو۔ دعویٰ صرف دعویٰ کردینے سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ پہلے دعویٰ کیا جاتا ہے اور پھر اس پر دلیل دے کر دعویٰ ثابت کیا جاتا ہے۔ جس طرح کا ایمان اللہ کے نزدیک مطلوب ہے اس طرح کا ایمان نہ ہوا تو وہ نہ ہونے ہی کے حکم میں ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اگرچہ اعلانیہ طور پر توحید الٰہی کا انکار نہیں کیا لیکن عملی طور پر ان کا اعلان آج بھی قرآن کریم میں موجود ہے اور اس طرح آخرت پر جس طرح کا ایمان عنداللہ مطلوب ہے وہ بھی اہل کتاب میں نہیں رہا تھا کیونکہ ان کے اعمال اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ وہ اس دعویٰ میں بی مطلق جھوٹے ہیں اور اس طرح جن چیزوں کو اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے وہ ان کو عملی طور پر حرام نہیں سمجھتے اور حلت و حرمت میں جو کچھ مسلمانوں کے ہاں حرام ہے مکمل طور پر وہی اہل کتاب کے ہاں بھی حرام ہے اور جو کچھ اہل اسلام کے ہاں حلال ہے وہی اہل کتاب کے ہاں حلال ہے ہم اس کی مکمل تشریح پیچھے سورة مائدہ اور سورة الانعام میں کرچکے ہیں۔ مثلاً سور جس کو خنزیر بھی کہا جاتا ہے آج بھی اسی طرح حرام لکھا ہے لیکن اہل کتاب کی وہ اس وقت مرغوب غذا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ صرف زبان سے ان چیزوں کا اقرار کرنا اور عملی طور پر ان کے انکار کرنے کا نتیجہ انکار ہی ہوتا اس دعویٰ کی کوئی قیمت نہیں جو دلیل نہ رکھتا ہو اور یہ حال منافقین کا ہے کہ وہ بظاہر اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا عمل ان کے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتا اس وجہ سے ان کو مومن نہیں کہا جاسکتا بلکہ منافق کہا جاتا ہے۔ ہاں ! یہ لوگ یعیو منافق اسلام کے اندر داخل ہونے کے باوجود اسلام سے خارج سمجھے جاتے ہیں اور وہ اہل کتاب کہلانے کے باوجود اہل کتاب سے خارج کئے جا رہے ہیں اس لئے فرمایا کہ جب مشرکین کی بیخ کنی ہوچکی اور ان کی شرارتوں کے باعث ان کو سزا دی گئی تو اب ان اہل کتاب کہلانے والوں کی شرارتوں کا جواب بھی دینا چاہئے اور ان کو اہل کتاب کی نگاہ سے نہیں بلکہ غیر مسلم اور کافر ہی کی طرح سمجھا جائے گا۔ اگر وہ شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان سے جنگ لڑی جائے گی اور اگر ان کو اسلامی حکومت کے شہری بن کر رہنا ہے تو ان کا شرارتوں سے باز نہ آئے تو ان سے جنگ لڑی جائے گی اور اگر ان کو اسلامی حکومت کے شہری بن کر رہنا ہے تو ان کا شرارتوں سے باز آنا لازم و ضروری ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کی راہ میں حائل نہ ہوں اور اپنی منافقت پر ہی قائم رہنا چاہتے ہیں تو اسلامی حکومت کو ٹیکس ادا کریں اور ان حدود کے اندر رہیں جو اسلامی قانون نے ان کے لئے متعین کردیا ہے۔ اہل کتاب کے لئے ضروری ہے کہ وہ جزیہ ادا کریں : 43: وہ سب سے پہلی پابندی یہی عائد کرتا ہے کہ وہ جزیہ دینا منظور کرلیں تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ اس بلک کے اندر امن وامان سے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ ٹیکس ادا کرنا اس بات کی ظاہری علامت ہے کہ وہ اسلام کے غلبہ کو قبول کرچکے ہیں اور کسی قسم کی مزاحمت کرنا نہیں چاہتے۔ ہاں ! یہ صحیح ہے کہ وہ بطور دین اسلام کو قبول بھی نہیں کرنا چاہتے اور اپنے خود ساختہ دین پر جس کا نام انہوں نے ییہودیت یا عیسائیت رکھا ہے قائم رہنا چاہتے ہیں تو ان کو مجبور کر کے اسلام ان کے اندر ٹھونسا نہیں جائے گا بلکہ ان کو اسلامی ملک کا ایک آزاد شہری ہونے کے حقوق میسر ہوں گے اور ان کی ہر طرح کی نگہداشت کا ذمہ دار اسلام ہوگا۔ جزیہ کیا ہے ؟ جزیہ جزیہ کے لفظی معنی بدلے کے ہیں اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ رقم ہے جو کفار سے ان کی نگہداشت کے ضمن میں وصول کی جاتی ہے۔ گویا جزیہ ایک ٹتیکس ہے جو اسلامی حکومت غیر مسلم افراد سے وصول کرتی ہے تاکہ ان کی نگہداشت کی جاسکے اور یہ ٹیکس بالغ اور کمانے والے افراد پر عائد ہوتا ہے اور حکومت تاس کے عوض اس کی جان و مال اور زن و فرزند کو مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے اس کی مقردار افرات کی حیثیت اور صلاحیت کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ جس میں چھوڑ اور رعایت کی بہت گنجائش رکھی گئی ہے اور حقیقت میں دیکھا جائے تو اسلام جو اپنے ماننے والوں یعنی مسلمانوں پر ٹیکس عائد کرتا ہے اس سے اس کی مقدار بہت کم رکھی گئی ہے۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں وہ غیر مسلموں کے حقوق کے عنوان میں کسی بھی اسلامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس جگہ ایک سوال یہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اہل کتاب کو مشرکین سے الگ کیوں رکھا گیا ؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے مخاطبین اول قریش مکہ ہی تھے اور انہوں نے ہی نے سب سے پہلے اسلام کی مزاحمت کی۔ اہل کتاب ان کی مدد صرف زبانی کلامی کرتے رہے وہ اس سے پبلے کبھی اسلام کا راستہ روکنے کے لئے سامنے نہ آئے تھے اگرچہ اندر ہی اندر سازشین کرتے رہے تھے اور ان کی سزا بھی پاتے رہے تھے۔ قریش مکہ کی قوت خرم ہوجانے کے بعد انہوں نے بھی قسمت آزمائی کی اس لئے ان کے احکام بھی قریش مکہ کے بعد ہی بیان کئے گئے۔ رہی جزیہ کی بات تو اس کی نوبت ہی اس وقت آئی جب مشرکین مکہ مکمل طور پر اسلام لا چکے تھے اور وہ من حیث الجماعت اسلام کے مقابلہ میں نہیں رہے تھے اگرچہ ان میں سے بعض نے منافقت کا پہلو اختیار کیا تاہم وہ ظاہری طور پر مسلمان ہی سمجھے جاتے تھے کیونکہ انہوں نے اسلام کا اقرار کرلیا تا بعد ازیں جب وہ من حیثیت الجماعت دوبارہ ابھرے تو وہ بھی انہی کفار کے ساتھ شامل کر لئے گئے جو جزیہ دے کر اسلامی حکومت میں امن وامان سے رہنا چاہتے تھے جیسے سائبین کا ایک گرچہ سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جزیہ ادا کرتا رہا تھا۔ عَنْ یَّدٍ ید کے معنی ہاتھ کے ہیں لیکن اس جگہ تمام مفسرین اسلام نے اس کے معنی قوت اور طاقت ہی کے لئے ہیں اور کسی ایک نے بھی اس سے انکار نہیں کیا جس کا مطلب بالکل صاف ہے کہ ہاتھ بمعنی طاقت و قوت استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے مراد اللہ کی طاقت اور قوت ہی لی ہے لیکن اکثر مفسرین کو اس سے شدید اختلاف ہے۔ حالانکہ ایک حقیقت کو حقیقت مان لینے سے قطعاً کوئی سبکی کی بات نہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات ان ہاتھوں سے جو ہر کو دو ہاتھ دیئے گئے بالکل پاک اور منزہ ہے اور اس طرح کے اس کے ہاتھ تسلیم نہیں کئے جاسکتے جن سے اللہ تعالیٰ کی ذات بھی کسی کے مثل ثابت ہو کیونکہ اسلام نے اس کی پوری پوری وضاحر کردی ہے کہ اللہ کی مثال کوئی چیز نہیں ہے اور رہی قوت تو اس معاملہ میں مماثلت ممکن ہی نہیں کیونکہ انسان کی قوت عطائی ہے جو اس سے سلب بھی کی جاسکتی ہے اور قوت الٰہی ذاتی قوت ہے اجو کبھی سلب نہیں ہوسکتی۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب ہوں یا دوسرے کافر وہ اسلامی حکومت و اقتدار اور طاقت و قوت کا اقرار کرتے ہوئے عملی طور پر جزیہ ادا کرنے پر خود رضا مند ہوجائیں تو ان کو اسلامی حکومت میں امن وامان کی زندگی میسر آجائے گی اور یہی باتصٰغِرُوْنَ کے لفظ سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ صاغر کے معنی ہیں چھوٹے مرتبے پر راضی ہوجانا یعنی کسی کی محکومیت اختیار کرلینا اور یہ تسلیم کرلینا کہ حکومت کرنا اس کا حق ہے ہمارا نہیں۔ اس طرح مزید وضاحت ہوگئی کہ یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفار اگر اپنے اپنے غیر اسلامی نظریات پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو یہ تسلیم کرلیں کہ حکومت کرنا مسلمانوں کا حق ہے اور اسلام کی طاقت و قوت کے سامنے ہم اپنی طاقت و قوت کا مظاہرہ نہیں چاہتے بلکہ امن وامان کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اسلامی مملکت کے انتظامی کاموں میں ہم جزیہ ادا کر کے زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح اسلامی حکومت جو ٹیکس ان پر عائد کرتی ہے اس کا نام اسلام میں جزیہ ہے۔ زیر نظر آیت دراصل جنگ تبوک کی تیاریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ عرب کے شمال میں رومن امپائر کی شہ پر عرب کے اہل کتاب ناز کرتے تھے۔ اس لئے ایک لحاظ سے ان کے ناز کو توڑ دیا اور دوسری طرف اسلامی لشکر کی تیاریاں رومن امپائر کی قوت کو توڑنے کی شروع ہوگئیں اور اس کا نام تبوک کی تیاری ہے جس میں مسلمانوں کا تیس ہزار کا لشکر ترتیب دیا گیا تھا۔ زیر نظر آیت 29 کے مضمون پر ایک بار پھر مجموعی نظر ڈال لیں۔ اس میں چند ایک مہمات ہیں جن کو اس جگہ بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے : (ا) آیت (29) میں عرب کے ان یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی تمام معاہدات فسخ کردینے کا حکم دیا ہے ، جنہوں نے یکے بعد دیگرے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں اور مسلمانوں کے امن و عافیت کے خلاف ایک بہت بڑا خطرہ بن گئے تھے اور حکم دیا ہے کہ مشرکین عرب کی طرح ان کے خلاف بھی اب اعلان جنگ ہے۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو حجاز میں یہودیوں کی متعدد جماعتیں آباد تھیں ، لیکن عیسائیوں کی کوئی قریبی آبادی نہ تھی وہ یا تو یمن میں تھے یا عرب اور شام کے سرضدی علاقے میں یہودیوں کا جو طرز عمل تھا ، اس کی طرف اشارت گزر چکے ہیں۔ عیسائیوں کی حالت یہودیوں سے مختلف رہی۔ ان کی طبیعت میں جمود اور سختی نہ تھی جو یہودیوں میں طبیعت ثانیہ ہوچکی تھی اس لئے جب انہوں نے اس دعوت کا حال سنا تو مخالفت کا جوش پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی طرف مائل ہونے لگے چناچہ یمن کے عیسائیوں نے ابتداء سے موافقانہ روش اختیار کی تھی اور خود اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیا تھا۔ پھر خود بخود اسلام نے اپنی راہ وہاں نکال لی ، انہی کے وفد سے وہ مخاطبات ہوئے تھے جو سورة آل عمران میں گزر چکے ہیں۔ عرب سے باہر کے جن عیسائیوں تک اسلام کی دعوت پہلے پہل پہنی ، ان کا بھی یہی حال رہے۔ چناچہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے جو بادشاہ مسلمان ہوا وہ جبش کا عیسائی فرمانروا ” نیگوش “ تھا جسے عرب نجاشی کہا کرتے تھے اور جس کی حق شناسی اور استعداد ایمانی کی مدح خود کلام الٰہی نے کی ہے۔ (5 : 83) اس عہد کے یہودیوں اور عیسائیوں کے اس اختلاف حال کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی واضح کردی ہے۔ (5 : 82) لیکن آگے چل کر جب اسلام کی دعوت زیادہ پھیل گئی تو وہ عیسائی ریاستیں جو عرب اور شام کے سرحدی علاقہ میں قائم ہوگئیں تھیں اور رومی حکومت کے ماتحت تھیں ، اس تحریک کی ترقی گوارا نہ کرسکیں اور رومی شہنشاہی کی پشت گرمی سے معذور ہو کر آمادہ پیکار ہوگئیں۔ سب سے پہلا معاملہ حضرت حارث بن عمیر کی شہادت کا پیش آیا۔ آنحضرت ﷺ نے انہیں دعوت اسلام کا خط دے کر ” موتہ “ بھیجا تھا جہاں کا رئیس شرجیل عمرو غسانی تھا۔ اس نے انہیں بغیر کسی جرم و قصور کے قتل کرادیا۔ اس صریح عذر وظلم نے پیغمبر اسلام کو جنگ پر مجبور کردیا اور ایک فوج 8 ہجری میں روانہ کی گئی اس وقت شہنشاہ قسطنطنیہ بھی شام بھی مقیم تھا اس سے رئیس موتہ نے مدد مانگی اور شاہی فوج بھی میدان میں آگئی۔ تاہم فتح مسلمانوں کی ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد شام کے تمام عرب قبائل نے تہیہ کرلیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور شہنشاہ قسطنطنیہ نے بھی ان کی اعانت کا فیصلہ کرلیا۔ چناچہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ شاہی فوجیں شام میں جمد ہونے لگیں اور پیغمبر اسلام ﷺ کو خود دفاع کے لئے نکلنا پڑا۔ یہی دفاعی اقدام ہے جو غزوہ تبوک کے نام سے مشہوا ہوا لیکن جو پیغمبر اسلام تبوک پہنچے تو معلوم ہوا ، مسلمانوں کے اس بےباکانہ اقدام نے دشمنوں کے ارادے پست کردیئے اور اب حملہ کا ارادہ ملتوی ہوگیا۔ اس سورة کی یہ آیتیں اس واقعہ کے بعد ہی نازل ہوئی تھیں اور چونکہ اب مسلمانوں پر اس جانب سے سخت حملہ ہونے والا تھا اور دوسری طرف عرب کے یہودی بھی اپنی سازشوں سے سرگرم تھے اس لئے ناگزیر ہوگیا تھا کہ مشرکین عرب کی طرح ان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کردیا جائے۔ پس اس آیت میں ” جنگ کرو “ کے حکم سے مقصود جنگ کی یہی صورت ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے تمام یہودیوں پر محض ان کے یہودی اور عیسائی ہونے کی وجہ سے حملہ کردو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں یا جزیہ نہ دیں ، جیسا کہ معترضین اسلام نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، ایسا مطلب صرف وہی قرار دے سکتا ہے جو پورے قرآن سے ، پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی سے ، صحابہ ؓ کے حلات سے اور تاریخ اسلام سے یک قلم آنکھیں بند کرلے۔ حکم قتال کے ساتھ یہ بات بھی واضح کردی کہ ان جماعتوں کو دعوت حق سے کیوں بغض ہوا اور کیوں راستی و عدالت سے منہ موڑ کر مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کے درپے ہوگئے ؟ چناچہ پہلے اہل کتاب کا نام نہیں لیا بلکہ ان کے چار سلبی وصف بیان کئے یعنی جن لوگوں کے اوصاف کا یہ حال ہے ، ان سے راستی و عدالت اور پاس عہد وقرار کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی اور وہ پیروان حق کی عداوت سے کبھی باز آنے والے نہیں۔ پس اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو چارہ کار کیا رہا ہے ؟ فرمایا ، باوجود اہل کتاب ہونے کے اب ان کا حال یہ ہے کہ نہ تو اللہ پر ایمان باقی رہا ہے نہ آخرت پر ، زبان سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ، لیکن ان کا ہر عمل اعلان کرتا ہے کہ مومن نہیں۔ پھر اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام کردیا تھا ، اب ان کے لئے حرام نہیں رہا کیونکہ اول تو ہواء نفس سے حیلے نکال کر کتنی ہی حرام چیزیں حلال کرلیں۔ پھر حلت و حرمت کا حق بھی خدا اور رسول کی جگہ اپنے فقہیوں اور پیشواؤں کو دے دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس دین حق کی انہیں حضرت موسیٰ اور مسیح (علیہما السلام) نے تعلیم دی تھی اسے یک قلم چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے ایمان کی اسی طرح نفی کی ہے جس طرح سورة بقر میں کی ہے کہ : وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۘ008 (2 : 8) (ب) اس کے بعد فرمایا : حَتّٰى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَّدٍ وَّ ہُمْ صٰغِرُوْنَ (رح) 0029 یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے اٹھا کر جزیہ دے دیں اور ان کا گھمنڈ ٹوٹ چکا ہو۔ نہ صرف عربی زبان میں یہ محاورہ موجود ہے کہ کسی چیز کو خود اپنے ہاتھ سے دے دینا رضا مندی سے دینا ہوتا ہے۔ مثلاً اردو میں کہیں گے ” تم اپنے ہاتھ سے اٹھا کر جو دے دو گے ، ہم لے لیں گے۔ “ یعنی اپنی خوشی سے جو دے دو ، وہی ہمارے لئے ٹھیک ہے۔ ٹھیک یہی مطلب عربی میں بھی اس ترکیب کا ہوتا ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا منظور کرلیں اور ان کا گھمنڈ اور ظلم جس نے انسان کے امن و راحت کو خطرہ میں ڈال دیا تھا ، باقی نہ رہے۔ (ج) : عربی میں جزیہ خراج کے عمنی میں بھی بولا گیا ہے جو اراضی سے وصول کیا جاتا ہے اور ٹیکس کے لئے بھی جو اشخاص پر عائد ہوتا ہے۔ ایران اور روم میں اسی طرح کے ٹیکس لئے جاتے تھے اور عربی کے جن حصوں نے ان کی باجگزاری منظور کرلی تھی وہ اس طرح کے ٹیکسوں سے آشنا ہوگئے تھے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ نجران (یمن) کے عیسائیوں کا جب وفد آیا تو اس نے خود یہ بات پیش کی کہ ہم مسلمان تو نہیں ہوتے لیکن اطاعت قبول کرلیتے ہیں۔ آپ ہم پر جزیہ مقرر کردیں۔ غالباً کزیہ لینے کا پہلا واقعہ ہے جو تاریخ اسلام میں پیش آیا۔ اس کے بعد بحرین کے یہودیوں اور مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا۔ (د) : یہاں جزیہ لینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اگرچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ذکر میں آیا لیکن اصلاً حکم تمام غیر مسلموں کے لئے ہے جو اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا منظور کرلیں چناچہ صدر اول سے لے کر آخر تک تمام اسلامی حکومتوں کا عمل اسی پر رہا۔ خود آنحضرت ﷺ نے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ صحابہ ؓ نے صابیوں سے لیا اور خلفاء بنو امیہ و عباسیہ کا سندھ کے بندوؤں سے اور پیروان بدھ سے لینا معلوم ہے۔ البتہ عرب کے غیرمسلموں کے بارے میں اختلاف ہوا اور امام ابوحنیفہ (رح) اور قاضی ابو یوسف (رح) اس طرف گئے ہیں کہ ان سے جزیہ پر مصالحت نہیں ہوسکتی لیکن اس بارے میں صحیح مذہب جمہور ہی کا ہے یعنی عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ خود آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ کا عرب کے غیر مسلموں سے جزیہ لینا ایک مسلم واقعہ ہے۔ باقی رہے مشرکین عرب ، تو ان کا سوال عملاً پیدا ہی نہیں ہوا ککیون کہ سورة برات کے نزول کے بعد تمام مشرکین عرب مسلمان ہوچکے تھے اور حکمت الٰہی کا فیصلہ یہی تھا کہ جاہلیت عرب کا شرک پھر کہاں سر نہ اٹھائے۔ (ہ) قرآن نے غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم کیوں دیا ؟ اس لئے کہ ہق و انصاف کا مقتضی یہی تھا اور اس لئے کہ وہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کے نظام حکومت میں غیر مسلموں پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے جتنا بوجھ مسلمانوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اسلام نے مسلمانوں پر جنگی خدمت فرض کردی تھی ، یعنی آج کل کی اصطلاح میں فوضی قانون جبری تھا اور اس لئے ضروری تھا کہ غیر مسلم اسلامی حکومت کے ماتحت شہری زندگی بسر کریں وہ بھی ملک کی حفاظت کے لئے جنگ میں شریک ہوں لیکن اسلام نے اسے انصاف کے خلاف سمجھا کہ اس بارے میں غیر مسلموں پر جبر کیا جائے اس نے یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دی اور کہا کہ اگر خود اپنی خوشی سے چاہو تو جنگ خدمات میں مسلمانوں کی طرح شریک ہو نہ شریک ہونا چاہو تو اس کے بدلے ایک سالانہ رقم ادا کردیا کرو یہی رقم تھی جو غیر مسلموں کے لئے جزیہ ہوئی۔ فی الحقیقت انسان کے عقائد و جذبات کی آزادی کا یہ ایسا اعتراف تھا جس کا اس عہد میں کوئی دوسری قوم تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگ کے لئے نکلنا ، اپنی جان کو ہتیلی پر رکھ لینا ہے۔ مسلمان ، مسلمانوں کو اس کے لئے مجبو رکر سکتے ہیں لیکن انہیں کیا حق ہے کہ غیر مسلموں کو اس کے لئے مجبور کریں ؟ چنانچہ صحابہ کرام ؓ کے زمانہ میں غیر مسلموں کو جو سرکاری فرامین دیئے گئے ان میں ہم صاف صاف اس کی تصریح پاتے ہیں جو فوج میں شریک ہوگا ، اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا ، جو نہ ہوگا ، اس سے جزیہ لیا جائے گا۔ بعض فرمانوں میں یہاں تک سہولت دی ہے کہ اگر عام طور پر شریک نہیں ہوتے ، صرف ایک برس شریک ہوگئے تو اس برس کی رقم معاف ہوجائے گی۔ طبری نے تاریخ میں اور بلاذری نے فتوح البلدان میں یہ فرامین نقل کئے ہیں۔ یہ تو پہلی علب ہوئی دوسری علت کا یہ حال ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر کئی طرح کے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا تھا۔ زکوٰۃ انہیں ادا کرنی چاہئے۔ عام صدقات و خیرات میں انہیں حصہ لینا چاہئے۔ جنگ پیش آجائے تو اس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہئے۔ پس ضروری تھا کہ غیر مسلم رعایا پر بھی ایسا ہی بوجھ ڈالا جاتا ، کیونکہ جہاں تک آزادی و حقوق کا تعلق ہے ان میں اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا تھا لیکن اسلام نے ایسا نہیں کیا غیر مسلموں کو حقوق تو مسلمانوں کی ہی طرح دیئے لیکن مالی بوجھ مسلمانوں کی طرح نہیں ڈالا۔ ان تمام ٹیکسوں کے بدلے جو مسلمانوں پر عائد کئے تھے ، صرف ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی ضروری ٹھہرائی یعنی جزیہ کی اور وہ بھی انہیں معاف کردیا جو فوجی خدمت کے لئے تیار ہوجائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فی الحقیقت غیر مسلموں کے لئے کوئی بوجھ نہ رہا اور حقوق سب کے سب رہے یعنی اگر ایک غیر مسلم ذمی فوجی خدمت سے انکار نہ کرے (جو خود اسی کے وطن کی حفاظت کے لئے ہوگی) تو وہ اسلامی حکومت میں آزادی و حقوق کی ٹھیک ویسی ہی زندگی بسر کرے گا جیسی ایک مسلمان بسر کرسکتا ہے لیکن مسلمان کی طرح اسے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیا اس طرز عمل کی کوئی دوسری نظیر تاریخ عالم سے پیش کی جاسکتی ہے ؟ (و) جہاں تک غیر مسلموں کے مذہبی ، معاشرتی اور شہری حقوق کا تعلق ہے موسیو لیبان کا یہ قول کفایت کرتا ہے کہ ” اسلامی حکومت کے ماتحت غیر مسلم ذمیوں کو وہ سب کچھ حاصل تھا جو کسی قوم کو حاصل ہو سکتا ہے۔ البتہ صرف ایک بات کا حق نہ تھا یعنی وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے تھے۔
Top