Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھل ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں کیا آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی ہی پر ریجھ گئے ہو ؟ دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر بہت تھوڑی
غزوات نبوی میں سے ایک اہم غزوہ ، غزوہ تبوک کا تذکرہ : 55: تبوک ایک مشہور مقام ہے جو مدینہ اور دمشق کے وسط میں نصف راہ پر مدینہ سے 14 منزل ہے۔ جنگ موتہ کے بعد سے رومی سلطنت نے عرب پر حملہ کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ غسانی خاندان جو شام میں رومیوں کے زیر اثر حکومت کر رہا تھا مذہباً عیسائی تھا اس لئے قیصر روم نے اس کو اس مہم پر متعین کیا۔ مدینہ میں یہ خبریں اکثر مشہور ہوتی رہتی تھیں۔ بنی اعظم و آخر ﷺ کے ایلاء کے واقعہ میں حضرت عمر ؓ سے جب عتبان بن مالک ؓ نے دفعۃً آکر یہ کہا کہ غضب ہوگیا تو انہوں نے اس کلی بات سنتے ہی جو کہا وہ یہ تھا کہ کیوں خیر ہے ؟ کیا غسانغ آگئے ہیں۔ ( بخاری ذکر واقعہ ایلاء) شام کے نبطی سدوا اگر مدینہ میں روغن زیتوں بیچنے آیا کرتے تھے انہوں نے خبر دی کہ رومیوں نے شام میں لشکر گراں جمع کیا ہے اور فوج کو سال بھر کی تنخواہیں بھی تقسیم کردی ہے اور اس فوج میں لخم ، جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں اور مقدمۃ الجیش ، بلقاء تک آگیا ہے۔ مواہب لدنیہ میں طبرانی سے روایت نقل کی ہے کہ عرب کے عیسائیوں نے ہرقل کو لکھ بھیجا تھا کہ محمد ﷺ نے انتقال کیا اور عرب سخت قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں اس بناء پر ہرقل نے چالیس ہزار فوج روانہ کی تھی۔ مختصر یہ کہ یہ خبریں تمام عرب میں پھیل گئیں اور قرائن اس قدر قوی تھے کہ غلط ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی اندریں صورت نبی اعظم و آخر ﷺ نے فوج کی تیاری کا حکم دیا۔ سوء اتفاق یہ کہ سخت قحط اور شدت کی گرمی تھی ان اسباب سے لوگوں کا گھر سے نکلنا نہایت شائق تھا۔ منافقین جو بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے ان کا پردہ فاش ہو چلا تھا وہ خود بھی جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی روکتے تھے۔ غزوہ تبوک 9 ہجری کے رجب میں شروع ہوا اور 9 ہجری کے رمضان میں ختم ہوا۔ غزوہ تبوک کا اعلان عام اسلام کے فداکاروں کا ایک سخت امتحان تھا اور منافق دعویداروں کا امیتاز بھی اس کے علاوہ لازمی نتیجہ کے طور پر اسلام کا کلمہ پڑھنے والوں کے مختلف حالات ہوگئے۔ قرآن کریم نے ان میں سے ہر حالت کے متعلق جدا جدا ارشادات بیان فرمائے ہیں جن کا ذکر اس سورت میں آتا رہے گا۔ ان میں سے ایک حالت ان کامل اور مکمل لوگوں کی تھی جو بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جو ابتداء میں اگر کچھ تردد میں پڑے لیکن ازیں بعد بالکل ساتھت ہوگئے اور تیسری حالت ان لوگوں کی تھی جو کسی خال اور صحیح عذر کی بناء پر اس جہاد میں شامل نہ ہوسکے۔ چوتھی قسم ان لوگوں کی تتھی جو باوجود کوئی عذر نہ ہونے کے کاہلی اور سستی کے بارث شریک جہاد نہ ہوئے۔ پانچواں طبقہ ان لوگوں کا تھا جو اپنے نفاق کی وجہ سے اس سخت امتحان میں اپنے نفاق کو چھپانہ سکے اور شرکت جہاد سے الگ رہے اور چھٹی قسم ان لوگوں کی تھی جو منافق بھی تھے اور جاسوس بھی اور شرارت کے لئے مسلمانوں کے ساتھ ہو لئے تھے۔ آگے آنے والی آیات میں ان ساری قسم کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ہم انشاء اللہ جگہ جگہ ان کی نشاندہی کرتے رہیں گے تاکہ بات واضح ہوتی جائے۔ ان ساری باتوں کے باوجود شرکت جہاد سے باز رہنے والوں کی تعداد شامل ہونے والوں کے مقابلہ میں بہت کم تھی۔ بھاری اکثریت ان مسلمانوں ہی کی تتھی جو بخوشی جہاد میں شریک ہوتے تھے اور اپنے سارے منافع اور راحت کو قربان کر کے اللہ کی راہ میں ہر طرح کی مشقت برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے اس طرح اس اسلامی جہاد میں نکلنے والوں کی تعداد تیس بزار تھی جو قبل ازیں کسی جہاد میں بھی نظر نہیں آئی۔ نتیجہ اس جنگ کا یہ ہوا کہ جب ہرقل کو مسلمانوں کی اتنی بڑی جمعیت کے مقابلہ میں آبے کی خبر ملی تو اس پر قدرتاً رعب طاری ہوگیا اور وہ مقابلہ کے لئے نہ آیا ۔ رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت تقریباً 20 دن وہاں انتظار کرنے کے بعد جب مخالف مقابلہ پر نہ آئے تو واپس مدینہ تشریف لے آئے۔ زیر نظر آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پچھلی بیان کردہ اقسام میں سے چوتھی قسم کے لوگ تھے یعنی باوجود کوئی عذر نہ ہونے کے صرف سستی اور کاہلی کا شکار ہوتئے اور ان کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ : ” اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تمہیں اللہ کے ارستے میں نکلنے کے لیے جاتا ہے تو تم زمین کو لگ جاتے ہو کیا تم آخرت کے بدلے صرف دنیا کی زندگی پر مگن ہوگئے ہو ؟ “ یہ گویا ان کی بیماری تھی جس کا علاج ان کو بتایا گیا کہ یاد رکھو ” دنیوی زنگی سے نفع اٹھانا تو کچھ بھی نہیں کیونکہ وہ بہت قلیل و حقیر ہے۔ “ اس لئے تمہارے یہ رویہ کبھی تمہارے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگا کیونکہ فائدہ قلیل کو پسند کرنے والے ہمیشہ فائدہ کثیر سے محروم رہتے ہیں اور یہی حال تمہارا ہوا۔
Top