Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ : اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی فَقَدْ نَصَرَهُ : تو البتہ اس کی مدد کی ہے اللّٰهُ : اللہ اِذْ : جب اَخْرَجَهُ : اس کو نکالا الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے (کافر) ثَانِيَ : دوسرا اثْنَيْنِ : دو میں اِذْ هُمَا : جب وہ دونوں فِي : میں الْغَارِ : غار اِذْ : جب يَقُوْلُ : وہ کہتے تھے لِصَاحِبِهٖ : اپنے س ا تھی سے لَا تَحْزَنْ : گھبراؤ نہیں اِنَُّ : یقیناً اللّٰهَ : اللہ مَعَنَا : ہمارے ساتھ فَاَنْزَلَ : تو نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلَيْهِ : اس پر وَاَيَّدَهٗ : اس کی مدد کی بِجُنُوْدٍ : ایسے لشکروں سے لَّمْ تَرَوْهَا : جو تم نے نہیں دیکھے وَجَعَلَ : اور کردی كَلِمَةَ : بات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : انہوں نے کفر کیا (کافر) السُّفْلٰى : پست (نیچی) وَكَلِمَةُ اللّٰهِ : اللہ کا کلمہ (بول) ھِىَ : وہ الْعُلْيَا : بالا وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم اللہ کے رسول کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ نے اس کی مدد کی ہے اور اس وقت کی ہے جب کافروں نے اسے اس حال میں گھر سے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا اور دونوں غار میں چھپے بیٹھے تھے ، اس وقت اللہ کے رسول نے اپنے ساتھی سے کہا تھا ” غمگین نہ ہو یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے “ پس اللہ نے اپنا سکون وقرار اس پر نازل کیا اور پھر ایسی فوجوں سے مددگاری کی جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالآخر کافروں کی بات پست کی اور اللہ ہی کی بات ہے جس کیلئے بلندی ہے اور اللہ غالب آنے والا حکمت والا ہے
اگر تم اس کے رسول کی مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد کرے گا ؟ 57: کیا تم اس وقت مدد کرنے سے اس لئے باز رہے کہ تمہارے خیال میں وقت موزوں نہیں تھا ؟ تمہیں کس چیز نا بتایا کہ یہ وقت موزوں نہیں ہے کیا تم نے غور نہیں کیا کہ تم کو نکلنے کا حکم کس نے دیا ؟ اللہ کے رسول نے جس کی کوئی حڑکت اور جس کا کوئی کام رضائے الٰہی کے خلاف نہیں ہوتا۔ حالات موافق ہوتے لیکن رضائے الٰہی نہ ہوتی تو پھر ؟ اگر اس وقت تم کو حالاتت کی ناموافقت روک رہی ہے تو آخر موافق حالات کون پیدا کرتا ہے ؟ حالت کتنی ہی مجبوری کی تھی لیکن جب دفاع ملت کا وقت آجائے تتو اس طرح کی کوئی مجبوری مجبوری تسلیم نہیں کی جاسکتی اور غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ ادائے فرض کی راہ بہرحال آسانیوں اور راحتوں کی راہ نہیں ہے اس میں مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی ہی پڑتی ہیں۔ ہاں ! یقیناً اس راہ کی مصیبتیں عارضی ہوتی ہیں اور نتائج کی کامرانیاں دوامی اس لئے تم اللہ کے رسول کی مدد نہ کر کے خود اپنا نقصان کرو گے۔ رہی رسول کے اعلان کی بات تو اس نے حکم الٰہی کے مطابق یہ اعلان کیا ہے اور وہ خود اس کی مدد کرے اور اس کے سچے بندے ہر حال میں اس کا ساتھ دیں گے۔ اس کی مدد اللہ نے اس وقت بھی فرمائی جب وہ صرف دو ساتھی تھے : 58: یہ وقت تو وہ ہے کہ تیس ہزار آدمیوں کا لشکر اس کے ساتھ ہے۔ اللہ نے تو اس کی اس وقت بھی مدد فرمائی جب اس کے ساتھ صرف ایک ہی آدمی تھا اور اس طرح وہ دو آدمی ہو کر ایک غار میں چھپے بیٹھے تھے۔ اس میں ہجرت مدینہ کی طرف اشارہ ہے۔ احادیث میں ہے کہ کفار مکہ نے جب باقاعدہ شورہ کر کے بنی اعظم و آخر ﷺ کو ٹھکانے لگانے کا عہد کرلیا اور جس رات کو اس واقعہ کے لئے منتخب کیا بالکل اسی رات جب کہ کفار نے آپ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کیا اور رات زیادہ گزر گئی تو قدرت الٰہی نے ان سب کو بیخبر کردیا آپ ﷺ ان سب کو اونگھتا دیکھ کر باہر تشریف لائے اور سیدھے ابوبکر صدیق ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں ان کو ساتھ لے کر مدینہ چلنے لگے تتو کعبہ کو دیکھا اور فرمایا : ” مکہ تو مجھ کو دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے۔ “ (صحیح بخاری باب الہجرت) ابو بکر صدیق ؓ سے پہلے ہی قرار داد ہوچکی تھی دونوں صاحب پہلے جبل ثور کے ایک غار میں جا پوشیدہ ہوئے۔ یہ غار آج بھی موجود ہے اور بوسہ گاہ خلائق ہے جو مکہ سے تین میل داہنی جانب ہے اور پہاڑ کی چوٹی تقریباً ایک میل بلند ہے (زرقانی ص 300) ابوبکر صدیق ؓ کے بیٹے عبداللہ جو نوخیز نوجوان تھے شب کو غار میں ساتھ سوتے اور صبح منہ اندھیرے شہر چلے جاتے اور پتہ لگاتے کہ قریش کیا مشورہ کر رہے ہیں جو کچھ خبر ملتی رات کو آکر نبی اعظم و آخر ﷺ سے عرض کردیتے۔ ابوبکر صدیق ؓ کا غلام کچھ رات گئے بکریاں چرا کر لاتا اور آپ ﷺ اور ابوبکر صدیق ؓ ان بکریوں کا دودھ پی لیتے تین دن تک آپ ﷺ کی یہی غذا رہی لیکن ابن ہشام نے یہ بھی لکھا ہے کہ سیدہ اسماء جو ابوبکر صدیق ؓ کی بڑی صاحبزادی تھیں روزانہ شام کو گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھی اور اسی طرح آپ ﷺ کی تین راتیں غار میں گزریں۔ (صحیح بخاری باب الہجرتۃ) جس رات نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے نکلے تھے جب صبح کو قریش کی آنکھیں کھلیں تو آپ ﷺ کے پلنگ پر حضرت علی ؓ کو سویا ہوا پایا۔ ظالموں نے حضرت علی ؓ کو پکڑ کر اور حرم میں لے جا کر کچھ دیر محبوس رکھا اور پھر چھوڑ دیا ازیں بعد نبی کریم ﷺ کی تلاش میں نکلے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار کے دھانہ تک آگئے۔ ان کے قدموں کی آہٹ پا کر ابوبکر صدیق ؓ گھبرائے اور غم زدہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ اب دشمن اس قدر قریب آگیا ہے کہ اپنے قدم پر ان کی نظر پڑجائے تو ہم کو دیکھ لیں گے۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا : لا تحزن ان اللہ معنا ۔ ابوبکر گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم اس کے پروگرام کے مطابق مکہ سے نکلے ہیں وہ کبھی ہم کو مکہ والوں کے ہاتھ میں نہیں دے گا۔ صاحب ضیاء نے اس جگہ خوب نوٹ فرمایا اور شیعہ حضرات کی ریزش ناک کو انہی کے گالوں پر مل دیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ : بعض شیعہ مصنّفین نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی شخصیر کو داغ دار کرنے کے جنون میں آیت طیبہ پر اس طرح طبع آزمائی کی ہے کہ دل لرز اٹھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت صدیق ؓ کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے تم اس آیت طیبہ کو پیش کرتے ہو اور کہتے ہو کہ آپ کو سفر ہجرت میں رفاقت کی سعادت حاصل ہوئی لیکن تمہارا یہ قول بےبنیاد ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ابوبکر ؓ نے رفاقت کی ہوتی تو اسے وجہ شرف کہا جاتا لیکن یہ تو از خود ساتھ ہو لئے تھے اور حضور ﷺ نے اس لئے ان کو ساتھ چلنے سے نہیں روکا کہ مبادا وہ کفار کو مطلع کریں اور اس طرح گرفتار کروادیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی توفیق ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو انسان ایسی ہی بےسروپا باتیں کرنے لگتا ہے مکہ مکرمہ سے ہجرت کا پروگرام بڑی رازداری سے طے پایا۔ جب کفار قبائل کے نوجوان حضور ﷺ کے کاشانہ اقدس کا محاصرہ کئے ہوئے تھے تو حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ان کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس راز سے حضرت ابوبکر ؓ کو کس نے آگاہ کیا یا حضور ﷺ کو حضرت صدیق ؓ پر کامل اعتماد تھا ورنہ اپنے دشمن کو ایسے رازوں سے آگاہ کرنا قطعاً قرین دانش مندی نہیں اور اگر حضرت علی ؓ نے آگاہ کیا تو ماننا پڑے گا کہ آپ کو بھی حضرت صدیق ؓ کے صدق و وفا پر پورا بھروسا تھا اس لئے آگاہ کیا اور اگر ان کو منافق سمجھتے ہوئے (العیاز باللہ) آگاہ کیا تو پھر حضرت علی ؓ کی وفاداری بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ یعنی آپ نے اس راز کو افشاء کر کے حضور ﷺ کو مشکلات میں مبتلا کرنے کا آغاز کردیا اور اس لا یعنی بات کو کوئی ایماندار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ صدیق ؓ کا ایمان وہ ایمان ہے جس پر کدا کو رسول خدا ﷺ کو اور شیر خدا کو مکمل اعتماد ہے۔ اس لیے ان کو اس راز سے آگاہ بھی کیا اور شریک سفر ہونے کی سعادت بھی ارزانی فرمائی گئی۔ جب حضرت صدیق ؓ کے ایمان کی گواہی علیم بذات الصدور خدا نے دی اور نبی کریم ﷺ نے دی اور علی مرتضیٰ ؓ نے تصدیق کی اگر آج کا بےعمل مسلمان صدیق اکبر ؓ پر زبان طعن دراز کرنے پر جرات کرتا ہے تو وہ اپنا ہی کچھ بگاڑتا ہے ، صدیق اکبر ؓ کی شان میں کمی نہیں ہوسکتی۔ خود اس فرقہ کے علماء نے ان کے اس زعم باطن کی تردید کی ہے۔ چند حوالے ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر منہج الصادقین میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : پس پیغمبر ﷺ شب پنج شبہ در شہر مکہ امیر المومنین رابر جائے خود میخوابانید ، و خود از خانہ ابوبکر در فاقت او بیرون آمد بداں غار توجہ نمود۔ ترجمہ : رسول کریم ﷺ نے پنج شبہ کی رات کو مکہ مکرمہ میں امیر المومنین کو اپنی جگہ پر سونے کا حکم دیا اور خود ابوبکر ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں ہمراہ لے کر باہر آئے اور اس غار کا قصد فرمایا۔ مصنف حملہ حیدری ، علامہ باذل نے واقعہ ہجرت کے بارے میں جو لکھا ہے وہ درج ذیل ہے۔ شاید ان دوستوں کے لئے سرمہ چشم بصیرت کا کام دے۔ چنیں گفت راوی کہ سالار دیں چوں سالم بحفظ جہاں آفریں زنزدیک آں قوم پر مکر رفت بسوئے سرائے ابوبکر فرت راوی کہتا ہے کہ دین کے سالار اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں اس مکار قوم کے محاصرے سے باہر نکلے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گھر کی طرف تشریف لے گئے۔ نئے ہجرت او نیز آمادہ بود٭کہ سابق رسولش خبردادہ بود حضور ﷺ نے انہیں سفر ہجرت کی خبردے دی تھی اس لئے وہ ساز و سامان کے ساتھ تیار بیٹھے تھے۔ نبی بردرخانہ اش چوں رسید٭بگو شش ندائے سفر درکشید نبی کریم ﷺ جب ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے سفر کرنے کی ندا سنی۔ چوں بو بکر ازاں حال آگاہ شد ٭زخانہ بوں رفت و ہمراہ شد حضرت ابوبکر ؓ جب اس حال سے خبردار ہوئے تو اپنے گھر سے روانہ ہو کر حضور ﷺ کے ہمراہ ہوگئے۔ ان دونوں حوالوں سے یہ واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ نے خود حضرت صدیق ؓ کو اپنے ہجرت کے ارادہ سے آگاہ کردیا تھا اور انہی بھی حکم دیا ہوا تھا کہ وہ بھی اس سفر میں ہم رکاب ہونے کے لئے تیار رہیں۔ حضور ﷺ کفار کے محاصرہ سے بخیریت نکل کے سیدھے حضرت صدیق ؓ کے گھر آئے اور انہیں ہمراہ لے کر مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آکر میں حضرت امام حسن عسکری کی روایت پیش خدمت ہے امید ہے آپ کے اس ارشاد سے اس تاویل باطل کا طلسم ٹوٹ کر رہ جائے گا۔ تفسیر حسن عسکری میں مروی ہے کہ جب کفار نے حضور ﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو جبرئیل (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچایا۔ کفار کی ریشہ دوانیوں کی اطلاع دی اور یہ پیغام الٰہی بھی گوش گزار گیا وامرک ان تستضحب ابا بکر ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ اس پر خطر سفر میں ابوبکر ؓ کو اپنے ہمراہ لے جائیں۔ کیا اب بھی آپ قاضی نور اللہ سوستری کی بات مانیں گے یا گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (رح) کے ارشاد کو تسلیم کریں گے۔ معترضین کی کج ادائی کے کرشمے اسی پر ختم نہیں ہوتے بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہویں اور کہتے ہیں کہ مان لیا ابوبکر ؓ کو حضور ﷺ ساتھ لے گئے تھے اور انہوں نے راستے کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے ثابت ہو کہ ان کی نیت بھی خالص تھی اور جب تک خلوص نیت نہ ہو کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی مقبول نہیں ہوتا اس لئے حضور ابوبکر ؓ کا سفر ہجرت میں ہم رکاب ہونا ان کے لئے ہرگز باعث فضیلت نہیں۔ یا سبحان اللہ ! اس ندرت فکر کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے۔ دو پہر کے وقت اگر کوئی شخص طلوع آفتاب کی دلیل طلب کرے تو اس میں اتنا اچنھبا نہیں جتنا ہمارے ان دوستوں کے اس ارشاد میں ہے۔ وہ شخص جو ایک کامیاب تاجر ہے جس کے پاس مال و ثروت کی فراوانی ہے جسے ہر قسم کی عزت و آسائش میسر ہے ، بچے ہیں ، بچیاں ہیں ، وہ ان سب چیزوں کو ٹھکرا کر ایک ایسی ہستی کا ساتھ دیتا ہے جس کو شہید کرنے کے منصوبے بن چکے ہیں۔ عرب کا بچہ بچہ اس کے خون کا پیاسا ہے ، خطرات کے مہیب بادل ہر طرف سے بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ جو شخص ان سنگین حالات میں جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے محبوب کی سنگت اختیار کرتا ہے اس کے خلوصنیت پر شک کرنے سے انسان کو شرم آنی چاہئے۔ مزید برآں غار میں تین چار روز قیام رہتا ہے اس عرصہ میں حضرت ابوبکر ؓ کا بیٹا عبداللہ ہر روز شام کو حاضر ہوتا ہے اور اہل مکہ کے ارادوں سے آگاہ کرتا ہے ، ان کی صاحبزادی اسماء ہر روز کھانا لے کر آتی ہے ، ان کا غلام عامر بن خیرہ دن بھر ریوڑ چراتا ہے شام کے وقت اسے ہانکتا ہوا غار کے قریب آکر ڈیرا جماتا ہے ، دودھ دوھتا ہے ، اسے گرم کرتا ہے اور خدمت اقدس میں پیش کرتا ہے۔ ابوبکر ؓ کا سارا خانوادہ اس جاں نثاری اور خڈمت گزاری کا مظاہرہ اس وقت کر رہا ہے جب مکہ والوں نے حضور ﷺ کو زندہ پکڑ کر کرنا یا شہید کردینے کے لئے ایک سو سرخ اونٹوں کے انعام کا اعلان کردیا ہے۔ عرب کے کئی طالع آزما شہسوار اس انعام کے لالچ میں اپنے سبک رفتار گھوڑوں پر سوا ہو کر حضور ﷺ کی تلاش میں اس علاقہ کے چپہ چپہ کو چھان رہے ہیں ادھریہ خاندان ہے جس کا صرف ایک فرد نہیں بلکہ تمام افراد بچے ، بچیاں حتیٰ کہ زر خرید غلام سب کے دل میں ایک ہی سودا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حبیب اور ان کا محبوب بخیر و عافیت منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ انسانیت اور اس کی اخلاقی قدروں پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کی حسن نیت پر شک کیا جائے اور شک کرنے والے ایسے لوگ ہوں جنہیں راہ حق میں کبھی کانٹا تک چبھنے کی سعادت بھی نصیب نہ ہوئی ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ لغت عرب میں صاحب کا معنی ہے ساتھی ، رفیق ، ہم نشین۔ اس لفظ میں شرف و فضیلت کی کوئی وجہ نہیں۔ ایک کافر ایک مومن کا ، ایک فاسق ایک پارسا کا ساتھی اور ہم نشین ہو سکتا ہے جیسے اس آیت میں ہے : قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ (18 : 38) یعنی ” جب اس نے اپنے صاحب ( ساتھی) کو کہا جب وہ اس سے گفتگو کر رہا تھا کیا تم اس خدا کا انکار کرتے ہو جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ “ اس آیت میں صاحب کا لفظ ہے اور اس سے مراد کافر ہے۔ سورۃ یوسف میں یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ” اے قید خانے کے دو ساتھیو۔ “ (12 : 41) اور دو دونوں بھی کافر تھے بلکہ اہل عرب تو حیوان کو بھی انسان کا صاحب (ساتھی) کہہ دیا کرتے۔ ان الحمار مع الحمار مطیۃ ۔ واذا خلوت بہ فبش الصاحب اگر ان دوستوں کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو پھر صرف ” صاحب “ کا لفظ ہی نہیں بلکہ بہت سے الفاظ اپنی عظمت و شرف سے محروم ہوجائیں گے۔ ایمان کے لفظ کو ہی لیجئے اس کا معنی تصدیق کرنا ہے یہ تصدیق اللہ تعالیٰ کی توحید کی بھی ہوسکتی ہے اور طاغوت و حبت کی بھی۔ آیت ملاحظہ ہو۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ (4 : 51) ترجمہ : ” کیا نہیں دیکھا تم نے ان لوگوں کی طرف جنہیں دیا گیا حصہ کتاب سے (وہ اب) ایمان لائے ہیں جبت اور طاغوت پر۔ “ اس طرح ہجرت کا لغوی معنی ہے کسی شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر میں چلے جانا یہ ترک وطن اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب کی رضا کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور کسی دنیوی منفعت کے لئے ، کسی عورت سے شادی رچانے کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح عبادت اللہ تعالیٰ کی بھی ہو سکتی ہے اور معبودان باطل کی بھی۔ وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ ۔ ” وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کی پوجا کرتے ہیں جو نہ ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ نفع۔ “ اگر وہ صاحب ، اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے باعث شرف نہیں تو پھر ایمان ، ہجرت ، عبادت اور دیگر اسلامی مصلحات بھی شرف و فضیلت سے بےبہرہ ہوں گے اور کسی کو مومن ، مہاجر ، عابد کہنے سے اس کی قطعاً عزت افزائی نہیں ہوگی۔ درحقیقت ان الفاظ میں عزت و شرف ان کے لغوی معنوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ ان کے متعلقات سے ہے۔ ایمان جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ہوگا۔ ہجرت جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لئے ہوگی۔ عبادت جب اللہ تعالیٰ کی ہوگی تو یہ کلمات معزز و ذیشان ہوں گے اسی طرح صاحب کے لفظ میں فضیلت نہیں بلکہ جس کا وہ صاحب ہے یعنی سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ستودہ صفات۔ اسی نسبت نے اس لفظ کو بھی چار چاند لگا دیئے ہیں اور جو صاحب کا لفظ کا مصداق ہے یعنی صدیق اکبر ؓ ۔ اس کو بھی وہ رفعتیں اور سرفرازیاں بخشی ہیں جن کے سامنے فلک الافلاک کی بلندیاں بھی ادب سے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ ازراہ انصاف آپ ہی بتائیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے محبوب کی صحبت و معیت اور ایک کافر و فاسق کی صحت و معیت یکساں ہے ؟ کوئی صاحب ایمان ایسا کہنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ نیز حضرت صدیق ؓ کی اس سنگت اور رفاقت کو جس انداز سے بیان کیا گیا ہے وہ بھی اپنے اندر ایک خصوصی شان رکھتی ہے۔ ثانی اثنین کے دو لفظوں میں غور فرمائیے۔ اس قسم کے عدد کا ذکر لغت عرب میں دو طرح سے کیا جاتا ہے کہتے ہیں ثانی اثنین ، ثالث ثلاثہ ، رابع اربعہ و غیرہا یعنی دو میں سے دوسرا ، تین میں سے تیسرا ، چار میں سے چوتھا ، اس صورت میں پہلا عدد دوسرے عدد کا جزو اور حصہ ہوتا ہے اور اس میں داخل ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ثالث اثنین ، رابع ثلاثہ ، خامس اربعہ یعنی دو کو تین بنانے والا ، تین کو چار اور چار کو پانچ بنانے والا۔ اس صورت میں یہ عدد پہلے عدد میں داخل نہیں ہوتا۔ اب اسے اس میں داخل کیا جا رہا ہے پہلے صرف دو تھے۔ اس عدد کے اضافہ سے اب دو تین ہوگئے۔ پہلے صرف تین تھے بعد میں اضافہ ہوا اب وہ تین چار بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ثانی اثنین فرمایا یعنی پہلے جو دو موجود تھے ان دونوں میں سے دوسرا یہ یگانت ، یہ رفاقت ، یہ صحبت خدا شاہد ہے حضرت صدیق اکبر ؓ کا ہی حصہ ہے۔ ان کلمات کے مفہوم کو خود زبان رسالت ؓ نے یوں بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد شاید کسی قسم کی ہرزہ سرائی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اسی فرقہ کے ایک فاضل علامہ فتح اللہ کاشانی اپنی تفیری منہج الصادقین میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں : ” چوں ابوبکر درغار کفار رابدید ، مضطرب شد و بسیار خائف گشت و گفت یا رسول اللہ ! اگر کسے از مشرکان ورزیر قدم خودنگہ کند ہر آئینہ مارا۔ حضرت ﷺ فرمود وما ظنک باثنین اللہ ثالثہا۔ “ ترجمہ : ” جب ابوبکر ؓ سے غار میں سے کفار کو دیکھا تو انہیں بڑا اضطراب لاحق ہوا اور اندیشہ پیدا ہوا عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ! اگر مشرکین میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی جگہ دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے ابوبکر ! ان دو کے بارے میں تیرا کیا حال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔ “ اس سے بڑی عزت افزائی کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ع یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے ہمارے یہ کرم فرمالَا تَحْزَنْ کے لفظ سے حضرت صدیق ؓ پر الزامات و مطاعن کی بوچھاڑ شروع کردیتے ہیں آپ بھی سنئے اور ان کی روش بیدار کی داد دیجئے۔ کہتے ہیں کہ ” یہ حزن جس سے حضرت ابوبکر ؓ کو منع کیا جارہا ہے یہ طاعت تھا یا معصیت ، طاعت تو ہو نہیں سکتا ورنہ اس سے منع نہ کیا جاتا۔ اللہ اور اس کا رسول نیک کاموں سے نہیں روکا کرتے۔ لازماً یہ حزن معصیت ہوگا۔ اس آیت سے ابوبکر ؓ کا عاصی اور گنہگار ہونا ثابت ہے نہ کہ آپ کی فضیلت۔ جواباً عرض ہے کہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل کو حزن اور خوف سے روکا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا : لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى اے موسیٰ خوف نہ کرو تم ہی سربلند ہوگے۔ (20) حضرت لوط کو فرشتوں نے کہا لا تحزن انا منجوک واھلک ۔ اے لوط ! حزن نہ کرو ہم تمہیں اور تمہارے اہل و عیال کو نجات دینے والے ہیں۔ خود سرور عالم ﷺ کو فرمایا : لا یحزنک قولھم۔ اے پیغمبر اسلام ! کفار کی باتیں آپ کو حزین و غمگین نہ کریں۔ دوسری جگہ ارشاد ہے : قَدْ نَعْلَمُ اِنَّهٗ لَیَحْزُنُكَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ ” اے حبیب ! ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو کفار کی باتیں غمزدہ کردیتی ہیں۔ “ کیا ہم ان محققین سے یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ ان آیات کی روشنی میں انبیاء کرام (علیہم السلام) بلکہ سید الانبیاء والرسل ﷺ کے بارے میں ان کا فتویٰ کیا ہے ؟ یہ خوف اور حزن جس سے انبیاء کا روکا جا رہا ہے طاعت تھا یا معصیت ؟ طاعت تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی سے نہیں روکتا اور یہاں خوف و حزن سے روکا جا رہا ہے لازماً معصیت ہوگا۔ اب فرمائیے انبیاء کرام (علیہم السلام) کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ حزن اور خوف امور طبیعہ میں سے ہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی ان سے دو چار ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کی دلجوئی لا تخف اور لَا تَحْزَنْ کہہ کر فرماتا ہے۔ نیز حضرت صدیق ؓ کو حزن و ملال اپنی ذات کے لئے ہرگز نہ تھا اگر انہیں اپنی جان پیاری ہوتی اور اپنا آرام عزیز ہوتا تو وہ اس پر خطر سفر میں سنگر ہی نہ کرتے انہیں اگر کوئی غم تھا یا اگر کوئی حزن تھا ، اگر کوئی اندیشہ تتھا تو فقط یہ کہ ان کے ہادی و مرشد محمد رسول اللہ ﷺ کو مبادا کوئی گزند پہنچے ورنہ یہ بزم عالم درہم برہم ہوجائے گی۔ گلشن ہستی میں خاک اڑنے لگے گی ، عروس گیتی کا سہاگ لٹ جائے گا۔ ارض و سماء کی یہ رونقیں ، یہ روشنیاں ، یہ بہاریں ہمیشہ کے لئے ناپید ہوجائیں گے ، اپنے محبوب کو خطرے میں گھرا دیکھ کر صدیق ؓ کے حزن و ملال کی حد نہ رہی۔ حضور پر نور ﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے میرے یار غار ! غم نہ کر بیشک اللہ تعالیٰ ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ جب ہمارے ساتھ ہمارا اللہ ہے تو یہ کفار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ مَعَنَا کا لفظ بھی غور طلب ہے۔ معیت الٰہی کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک معیت علم ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہرچیز کو جانتا ہے اور اپنے علم کے ذریعہ ہرچیز کے ساتھ ہے ، جیسے اس آیت میں ہے : اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ 1ؕ مَا یَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَهُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا 1ۚ (58 : 8) ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، کوئی تین آدمی مشورہ کرنے والے نہیں ہوتے جبکہ وہ ان کا چوتھا نہ ہو اور نہ پانچ مشورہ کرنے والے ہوتے ہیں جب کہ وہ ان کا چھٹا نہ ہو اور نہ اس تعداد سے کم ہوتے ہیں نہ زیادہ۔ وہ ہر صورت میں ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی مشورہ کر رہے ہوں۔ “ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے ایسی معیت میں کوئی فضیلت نہیں بلکہ اس میں تہدید اور سرزنش ہے خبردار ! اگر تم نے نافرمانی کی تو ہماری گرفت سے تم بچ نہیں سکتے۔ معیت الٰہی کی دوسری قسم وہ ہے جو متقین اور محسنین کو حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری ہے : اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ (رح) 00128 ” بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان کے ساتھ ہے جو نیکو کار ہیں۔ “ اس معیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی توفیق سے ان کی دستگیری کرتا رہتا ہے اور اپنے لطف سے ان کو نوازتا رہتا ہے۔ معیت الٰہی کی تیسری قسم وہ ہے جو انبیاء وہ رسل کو میسر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر دشمن کے مقابلہ میں ان کی تائید و نصرت فرماتا ہے۔ ہر میدان میں وہ کامیاب و سرفراز ہوتے ہیں اور کفر و باطل کے سرغنے ذلیل و رسوا ہوتے ہیں اور ان تمام اقسام سے اعلیٰ وارفع معیت الٰہی کی وہ قسم ہے جو سید الانبیء و الرسم ﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ حضور ﷺ نے اپنے یار غار کو ان اللہ معنا فرما کر اسی خصوصی معیت میں شرکت کی سعادت ارزانی فرمائی۔ ایسی حالت سے نکال باہر لانے والا اللہ اب بھی اس کی مدد کرے گا : 59: یہ بات کہنے کو دو لفظ ہیں جن کا بولنا کچھ مشکل نہیں لیکن سننے والے حالات کا پورانقشہ سامنے رکھ کر ذرا دیکھیں کہ محض مادیات پر نظر رکھنے والے لوگوں سے یہ اطمینان ممکن ہی نہیں اس کا سبب کیا تھا ؟ اس کا سبب وہی تھا جو قرآن کریم نے اس جملہ میں ادا کردیا کہ ” اللہ نے اپنا سکون وقرار اس پر نازل کیا اور پھر ایسی فوجوں سے اس کی مدد فرمائی کہ جنہیں تم نہیں دیکھتے اور بالاخر کافروں کی بات کو پست کر دکھایا اور اللہ ہی کی بات ہے جس کے لئے بلندی ہے اور اللہ غالب آنے والا حکمت والا ہے۔ “ یہ لشکر کیا تھے ؟ پورے عالم کی قوتیم الٰہی لشکر ہیں اس لئے اس سے مراد فرشتے بھی ہو سکتے ہیں اور عالم دنیا کی وہ مدد بھی جو ایک مطلئن دل کو حاصل ہوتی ہے اور اس دنیا کی کوئی چیز اس کو مسخر نہیں کرسکتی اور جس کا نتیجہ خود اللہ نے بیان کردیا کہ ” بالاخر کفر کا کلمہ پست ہو کر رہا اور اللہ ہی کا بول بالا ہوا۔ “ اس کی اس طرح کی مدد کا راز اتنا پوشیدہ ہے کہ اس کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی بلکہ اس کو صرف اور صرف اہل بصیرت ہی دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور ہجرت کے واقعات جو قلمبند کئے گئے ہیں ان کا مطالعہ کر کے دیکھو تو بات یقیناً واضح ہوجائے گی کہ حکمت الٰہی کی کیا کیا کرشمہ سازیاں ہیں اور وہ کس انداز میں دنیا کی ہر ایک چیز سے اپنے بندوں کی مدد فرماتا رہتا ہے۔
Top