Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 44
لَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالْمُتَّقِیْنَ
لَا يَسْتَاْذِنُكَ : نہیں مانگتے آپ سے رخصت الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت اَنْ : کہ يُّجَاهِدُوْا : وہ جہاد کریں بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنین جان (جمع) وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِالْمُتَّقِيْنَ : متقیوں کو
جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ کبھی تجھ سے اجازت کے طلبگار نہ ہوں گے کہ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جہاد کریں اور اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہیں
سچے مومن کبھی بھی آپ سے اس طرح اجازت طلب نہ کریں گے : 65: پیچھے آپ پڑھ چکے ہیں کہ جہاد میں ہلکے اور بوجھل ہو کر نکلنے کا حکم دیا تھا کیوں ؟ اس لئے کہ جہاد کی استعداد رکھنے والے اور نہ استعداد رکھنے والے سب کو نکلنے کی ہدایت دی تھی کیونکہ نوجوان نکل چلنے میں ہلکا ہوتا ہے اور معمر آدمی بوجھل کیونکہ سرگرم عمل آدمی فوراً اٹھ کھڑا ہوگا اور کسل مند کے قدم بوجھل ہوں گے۔ جس کے علائق زیادہ ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا ہلکا نہیں پائے گا جتنا ایک مجرد آدمی یا کم علائق رکھنے والا اس طرح کوئی سروسامان میں ہلکا ہوگا ، کوئی اسلحہ جنگ سے بھاری ہوگا چناچہ روایت میں آیا ہے کہ ابو راشد حرانی کہتے ہیں میں نے مقداد بن اسود کو حمص میں دیکھا وہ جنگ کے لئے نکل رہے تھے میں نے کہ اللہ نے تمہیں معذور ٹھہرا دیا ہے مطلب یہ تھا کہ آپ بوڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انفروا خفافاً وثقالا کا کیا جواب ہے ؟ حیان ابن زید سے مروی ہے کہ میں نے افس جاتے ہوئے فوج میں ایک نہایت بوڑھے آدمی کو دیکھا جس کی بھنویں آنکھوں پر آگری تھیں میں نے متعجب ہو کر کہا کہ کیا اللہ نے معذوروں کو معاف نہیں فرمادیا ؟ تو اس نے کہا کہ اللہ نے تو ہمیں ہر حال میں نکلنے کا حکم دیا ہے اور یہی بات ابو ایوب انصاری ؓ سے مروی ہے۔ اس آیت میں مزید وضاحت فرمادی کہ اے پیغمبر اسلام ! جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کی لگن ہے بھلا وہ ایسے کام میں جو سراسر انہی کے فائدہ کا ہے وہ آپ سے کیوں کر اجازت مانگیں گے ؟ اور کیوں اس کے انتظار میں بیٹھیں گے ؟ ان کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ادائے فرض کا وقت آگیا اور جسے ایمان عزیز ہے وہ ادائے فرض کے لئے مستعد ہوجاتے ہیں اجازت تو وہی طلب کریں گے جن کے دلوں میں سچا ایمان نہیں اور جو شک کے روگی ہیں تاکہ ان کو کوئی نہ کوئی بھاگنے کی راہ مل جائے۔ جو صحیح معنوں میں اس اجازت کے مستحق ہیں ان کو بھی اجازت طلب کرنے کی حاجت نہیں ہوگی کیونکہ مجاہدین کو کمان کرنے والا خود سمجھے گا کہ اس آدمی کو جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اس قابل نہیں چناچہ ایسے لوگوں کو خود بخود اجازت مل جائے گی بلکہ وہ کوئی بہانہ کریں گے تو ان کی خواہش یہ ہوگی کہ ہمیں جہاد میں شریک ہونے کا موقع مل جائے اور وہ عذر موجود ہونے کے باوجود کوئی راہ نکالنے کی کوشش کریں گے کہ ہم اس سعادت سے محروم نہ رہیں۔ چناچہ اس کی مثالیں احادیث و روایات میں موجود ہیں۔
Top