Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 45
اِنَّمَا یَسْتَاْذِنُكَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُهُمْ فَهُمْ فِیْ رَیْبِهِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ
اِنَّمَا : وہی صرف يَسْتَاْذِنُكَ : آپ سے رخصت مانگتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَارْتَابَتْ : اور شک میں پڑے ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ فِيْ : میں رَيْبِهِمْ : اپنے شک يَتَرَدَّدُوْنَ : بھٹک رہے ہیں
تجھ سے اجازت طلب کرنے والے تو وہی ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑگئے ہیں تو اپنے شک کی حالت میں متردد ہو رہے ہیں
اجازت طلب کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے دل شک میں مبتلا ہیں کہ نتیجہ کیا ہوگا : 66: چونکہ مقابلہ بیز نطانی شہنشاہی سے تھا جو مشرق میں رومۃ الکبریٰ کی عظمت کی جانشین تھی اور ابھی حال میں ایران کو شکست دے چکی تھی اس لئے منافقوں کو یقین تھا تو صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کے خاتمے کے دن آگئے ہیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو منافقوں کا سردار تھا لوگوں کو یقین دلاتا تھا کہ پیغمبر اسلام اس سفر سے لوٹ کر آنے والے نہیں۔ اس لئے رخصت کی درخواستیں بھی وہی لوگ لے کر آتے ہیں جن کا اللہ اور آخرت پر سچا ایمان نہیں ہے بلکہ ان کے دلوں کو شک کا روگ چمٹا ہوا ہے جس کے سبب سے وہ زبان سے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھی بنے ہوئے ہیں لیکن ان کے دل ڈانواں ڈول ہیں۔ اس آیت میں زیر بحث وہی لوگ ہیں جو خود تو جھوٹے عذرات کی آڑ لے کر اپنے کو معذور ٹھہراتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو اپنے ان عذرات پر مطمئن نہیں کرسکتے اس لئے کہ جہاد کے لئے جو چیزیں عذر بن سکتی ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ دوسروں سے مخفی ہوں جو لوگ واقعی معذور ہوتے ہیں ان کا عذر یقیناً بد یہی ہوتا ہے اور ہر شخص ان کو دیکھتے ہی معذر ٹھہراتا ہے چناچہ معذورین کا ذکر آگے اس سورت کی آیتت 91 ، 92 میں آنے والا ہے اور وہ وہی لوگ ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہوسکتے لیکن اس کے باوجود وہ عنداللہ متتقی ٹھہرتے ہیں جیسا کہ اس جگہ فرمایا گیا کہ ” اللہ جانتا ہے کہ کون متقی ہیں۔ “ ا
Top