Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 46
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر اَرَادُوا : وہ ارادہ کرتے الْخُرُوْجَ : نکلنے کا لَاَعَدُّوْا : ضرور تیار کرتے لَهٗ : اس کے لیے عُدَّةً : کچھ سامان وَّلٰكِنْ : اور لیکن كَرِهَ : ناپسند کیا اللّٰهُ : اللہ انْۢبِعَاثَهُمْ : ان کا اٹھنا فَثَبَّطَهُمْ : سو ان کو روک دیا وَقِيْلَ : اور کہا گیا اقْعُدُوْا : بیٹھ جاؤ مَعَ : ساتھ الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھنے والے
اور اگر واقعی ان لوگوں نے نکلنے کا ارادہ کیا ہوتا تو اس کیلئے کچھ نہ کچھ تیاری ضرور کرتے مگر اللہ نے ان کا اٹھنا پسند نہ کیا پس انہیں بوجھل کردیا اور ان سے کہا گیا کہ دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو
گر واقعی یہ لوگ معذور ہوتے تو ان کا عذر روز روشن کی طرح عیاں ہوتا : 67: واقعات و حالات خود بتا دیتے ہیں کہ یہ آدمی اپنی بات میں کس طرح سچا ہے اور کیا بات اس نے جھوٹ گھڑی ہے۔ اگر غور کرو گے تو تم کو خود بخود سمجھ آجائے گا کہ ان کے سارے عذرات محض بناوٹی ہیں اگر ان کے اندر جہاد کے لئے اٹھنے کا ارادہ موجود ہوتا تو کچھ نہ کچھ سامان تو یہ کر ہی لیتے اگر بھرپور تیاری نہیں تو معمولی سامان بقدر ضرورت مہیا کرلینا تو ان کے لئے کچھ دشوار نہ تھا چونکہ ان کے اندر ہی موجود نہ تھا اور سنت الٰہی ازل سے یہ مقرر ہے کہ جو لوگ نیکی کمانے کے لئے خود اپنے ارادے کو حرکت میں نہیں لائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو توفیق بھی ارزاں نہیں ہوگی۔ ع توفیق باندازہ ہمت ہے ازل سے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں اور مریضوں کی طرح گھر میں بیٹھا رہنا پسند کیا تو اللہ نے بھی ان کو عزم و حوصلہ سے محروم کردیافَثَبَّطَهُمْ تشبیط کے معنی کسی کو کسی کام سے روک دینے اور بتا دینے کے ہیں اور یہ توفیق کے باب میں سنت الٰہی کا بیان ہے اللہ نے ان کو کیوں محروم رکھا ؟ محض اس لئے کہ وہ اس سے محروم رہنا چاہتے تھے اس لئے گویا طنز کے طور پر کہا گیا کہ ” دوسرے بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو۔ “ رہی یہ بات کہ سنت الٰہی کیا ہے ؟ تو وہ یہ ہے کہ جو یندہ یا بندہ ہوتا ہے جو تلاش کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔ ان کے ارادہ ہی میں یہ موجود نہ تھا اگر ہوتا تو وہ بھی کوئی قدم ایسا اٹھاتے جس سے ان کی تیاری معلوم ہوجاتی۔
Top