Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 48
لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَ قَلَّبُوْا لَكَ الْاُمُوْرَ حَتّٰى جَآءَ الْحَقُّ وَ ظَهَرَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ
لَقَدِ ابْتَغَوُا : البتہ چاہا تھا انہوں نے الْفِتْنَةَ : بگاڑ مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَقَلَّبُوْا : انہوں نے الٹ پلٹ کیں لَكَ : تمہارے لیے الْاُمُوْرَ : تدبیریں حَتّٰي : یہانتک کہ جَآءَ : آگیا الْحَقُّ : حق وَظَهَرَ : اور غالب آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : امر الہی وَهُمْ : اور وہ كٰرِهُوْنَ : پسند نہ کرنے والے
ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کیلئے خوشگوار نہ تھا
اے پیغمبر اسلام ! کیا اس سے قبل یہ لوگ اس طرح کی حرکتیں نہیں کرچکے ؟ 70: زیر نظر آیت میں اس گروہ منافقین کی بعض پچھلی شرارتوں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے اور ان کے درمیان فساد کرنے کے لئے کیں۔ یعنی معاملہ کچھ اور تھا اور انہوں نے اپنی مطمع سازی اور فتنہ پردازی سے اس کو کچھ کا کچھ بنادیا۔ اس جگہ قرآن کریم نے صرف اجمالی اشارہ لیا اس لئے کہ یہ باتیں پیغمبر اسلام ﷺ اور مسلمانوں سے مخفی نہیں تھیں۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے جنگ بدر کے موقع پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی منشاء واضح ہونے کے باوجود کچھ مسلمانوں کو قافلہ تجارت پر حملہ کرنے کی راہ سمجھانے کی کوشش کی اور یہی لوگ تھے جنہوں نے جنگ احد کے موقع پر پہلے تو شہر میں محصور ہو مقابلہ کرنے کا مشورہ دیا پھر جب ان کا مشورہ قبول نہ ہوا تو عبداللہ بن ابی کی سرداری میں تین سو آدمیوں کو لے کر عین موقع پر الگ تھلگ ہوگئے پھر جنگ کے بعد انہوں نے اپنے ہم خیالوں اور کان کے کچے لوگوں کے پاس نبی اعظم و آخر ﷺ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا کہ نعوذباللہ آپ ﷺ قوم کی بہی خواہ نہیں کہ ہمارا خیر خواہانہ مشورہ کے خلاف ایک غلط مقام پر لے جا کر ہمارے بھائیوں کو کٹوا دیا اور شکست کا سبب بنے پھر یہی لوگ تھے جنہوں نے جنگ مریسیع کے موقع پر اپنی فتنہ انگیزیوں سے ایئسی صورت پیدا کردی کہ انصار اور مہاجرین کے درمیان تلوار چلتے چلتے رہ گئی۔ پھر ان کی ایک شرارت واقعہ اگک کی شکل میں ظاہر ہوئی جو بات کا بتنگڑ بنانے کی ایک نہایت سخت گھناؤنی مثال ہے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے حنین کے موقع پر تقسیم غنیمت کے معاملہ میں کچھ لوگوں کے دلوں میں اپنی بدطنیتی سے سخت کدورت پیدا کرنے کی بہت بڑی کوشش کی مختصر یہ کہ جو موقع بھی ان کے ہاتھ آیا اس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار ان کی مفسدانہ سرگرمیوں کے علی الرغم ان کے فتنوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھا اور یہ کچھ وہ اب بھی تمہارے اندر رہ کر کرتے یہ تو اللہ کا خاص فضل و احسان ہوا کہ اس دفعہ ان کو یہ توفیق ہی نہ ہوئی کہ وہ تمہارے ساتھ شریک ہوتے۔ ان کا تخاطب انداز ان کے دلوں کی ساری کدورت ظاہر کررہا ہے : 71: گزشتہ آیات سے معلوم ہوا کہ جماعتی زندگی کے لئے تذبذب اور کچے دل کے لوگوں کی موجودگی بہت مہلک ہوتی ہے خصوصاً جب قوم موت وحیات کی جدوجہد میں مشغول ہو یہی وجہ ہے کہ آزاد سے آزاد قومیں بھی مجبور ہوئیں کہ جنگ کے وقت حکومت کو غیر معمولی اختیارات دے دیں اور اگر شخصی آزادی کے قوانین بھی معطل کردے تو معترض نہ ہوں کیونکہ ایسے وقت میں ایک منافق کی شرارت پوری قوم کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ اس لئے گزشتہ آیات سے یہ سبق حاصل ہو کہ حتیٰ الامکان ایسے افراد کی موجودگی برداشت نہیں کرنا چاہئے کہ ان کی علیحدگی سے جو عارضی شور و شغب ہوگا وہ جماعتی مصالح کے لئے زیادہ مضر ہوگا اگر درخت کی جڑ درست ہے تو جتنا چھانٹو گے اتنا ہی زیادہ پھیلتا جائے گا اور فاسد اعضاء کا الگ کردینا مضر نہیں ہوتا بلکہ چھوڑ دینا جسم کے لئے مہلک ہوتا ہے۔ زیر نظر آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ، فرمایا بعض منافق کہتے ہیں کہ اس سفر میں نکلنا فتنوں میں پڑا ہے۔ پس ہمیں فتنہ میں نہ ڈالئے بلکہ مدینہ میں بیٹھا رہنے دیجئے۔ اس فتنہ سے ان کا مقصد کیا تھا ؟ اسے اس لئے بیان نہیں کیا کہ صریح قائن واضح کر رہے ہیں اور یہی قرآن کریم کی معجزانہ بلاغت ہے۔ وہ یقیناً ہر طرح کے متوق اور دہمی خطرات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہوں گے اور اسے فتنجہ سے تعبیر کرتے ہوں گے۔ مثلاً اس گرمی کے موسم میں ہزاروں آدمیوں کو اس قدر دور سفر پر لے جاناجان بوجھ کر انہیں ہلاک کرنا ہے اور یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ، پھر جہاں جانا ہے وہ دوسروں کا ملک ہے نہیں معلوم وہاں جا کر کن کن برائیوں میں پڑنا پڑے ؟ احادیث میں آیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے تبوک کا ارادہ کیا تو منافقوں کے ایک سردار جد بن قیس نے کہا : ” عورتوں کے معاملہ میں میں بہت کمزور ہوں ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں بنو اصغیر یعنی رومیوں کی عورتیں دیکھ کر مفتون نہ ہوجاؤں۔ پس مجھے رہ جانے کی اجازت دے دیجئے اور اس فتنہ میں نہ ڈالئے۔ (ابن جریر)
Top