Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 59
وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ۙ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤ١ۙ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : کیا اچھا ہوتا اَنَّهُمْ : اگر وہ رَضُوْا : راضی ہوجاتے مَآ : جو اٰتٰىهُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول وَقَالُوْا : اور وہ کہتے حَسْبُنَا : ہمیں کافی ہے اللّٰهُ : اللہ سَيُؤْتِيْنَا : اب ہمیں دے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اِنَّآ : بیشک ہم اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ رٰغِبُوْنَ : رغبت رکھتے ہیں
اور اگر ایسا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دے دیا اس پر راضی ہوجائے اور کہتے ہمارے لیے اللہ بس کرتا ہے ، اللہ اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی ، ہمارے لیے تو بس اللہ ہی غایت و مقصود ہے
جو کچھ ان کو دیا گیا تھا اگر اس پر راضی ہوجاتے تو یہ بات ان کے حق میں مفید ہوتی : 81: زیر نظر آیت میں لفظ لَوْ کا جواب محذوف ہے اور یہ عربی زبان میں عام ہے۔ تقدیر کلام اس طرح ہے کہ : وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا ۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول نے ان کو دیا تھا اگر وہ اس پر خوش ہوجاتے تو یہ بات ان کے حق میں اچھی ہوتی اور وقت آنے پر ان کو مزید بھی ملتا لیکن وہی بات کہ وہ ایسا اس وقت کرتے جب ایمان کی دولت بھی ان کو نصیب ہوتی وہ تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہوئے تھے اور ان کا مطلب بھی فقط وہ انعام حاصل کرنا تھا جو شہیدوں کے لئے رکھا گیا ہے۔ جب انکو وہ نہ ملا تو ہو جز بز ہوگئے اور ایسے لوگوں کی اس وقت بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں جتنی سیاست ہے وہ سارے کی ساری انہی خطوط پر چل رہی ہے جس پارٹی سے کسی کی غرض پوری ہوتی ہے وہ اس کی پارٹی ہے اور وہ جو کچھ کرے وہ من حیث الکل جائز اور درست ہے اور اگر اس کی اپنی غرض اس سے پوری نہیں ہوتی تو وہ پارٹی سراسر ظالم اور ناانصاف ہے کیوں ؟ محض اس لئے کہ اس کے نزدیک اس کی غرض کا پورا ہونا عین انصاف اور اس کی غرض کا پورا نہ ہونا عین ظلم ہے۔ آپ سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کریں تو یہی کچھ پائیں گے اور اگر مذہبی گروہ بندیوں کا تجزیہ کریں تو یہی کچھ اس سے حاصل ہوگا۔ اس منافقت کے کان تو ہم مدت سے کاٹ چکے ہیں جس منافقت کا ذکر قرآن کریم نے جگہ جگہ کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان منافقوں کا ذکر ہماری تاریخ می ، تفاسیر میں اور اسلامی لٹریچر میں آچکا ہے لہٰذا ان کا نام لینا تو قرآن کریم کی تفسیر ہوگی اور اس دور کے منافقین جو گزشتہ سارے منافقین کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں چونکہ ان کا نام کسی تاریخ کی کتاب اور کسی تفسیر میں دستیاب نہیں لہٰذا ان کی ترجمانی کے لئے ہمارے علماء کرام یہ فتویٰ صادر کریں گے کہ ایسی تفسیر بالرائے ہے اور تفسیر کرنے والے جہنمی اور اس طرح کا فتویٰ صادر فرما کرا دراصل وہ اپنا حق ان سے وصول کرنا چاہتے ہیں جن پر یہ فتویٰ چسپاں ہوتا تھا تاکہ ان کا نام اسلام کی فہرست میں صرف موجود ہی نہیں بلکہ سرفہرست موجود رہے اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔
Top