Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقہ کا مال تو اور کسی کے لیے نہیں ہے ، صرف فقیروں کے لیے ہے اور مسکینوں کے لیے اور ان کے لیے جو اس کی وصولی کے کام پر مقرر کیے جائیں اور یہ کہ ان کے دلوں میں الفت پیدا کرنا ہے اور یہ کہ ان کی گردنیں جکڑی ہیں ، نیز قرضداروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں مسافروں کے لیے یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے
زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی فہرست جو قرآن کریم نے مقرر فرمادی : 82: زیر نظر آیت نمبر ساٹھ (60) مصارف زکوٰۃ کے باب میں اصل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بعض مہمات واضح ہوجائیں۔ 1۔ ہم نے ترجمہ میں ” فقر “ اور ” منافقین “ کے لئے دوسرے الفاظ اختیار نہیں کئے کیونکہ عربی میں ” فقر “ اور ” مسکنت “ سے مقصود احتیاج کی دو مختلف حالتیں ہیں اور ضروری ہے کہ ان کی لغوی نوعیت بجنسہ قائم رکھی جائے۔ فقیر اور مسکین دونوں سے مقصود ایسے لوگ ہیں جو محتاج ہوں لیکن فقر عام ہے اور مسکنت کی حالت خاص ہے۔ فقیر اسے کہیں گے جس کے لئے ضروریات زندگی کے لئے کچھ بھی نہیں لیکن مسکین وہ ہے جس کی احتیاج ابھی اس آخری درجہ تک تو نہیں پہنچی مگر پہنچ جائے گی اگر خبر گیری نہ کی جائے مثلاً سوسائٹی کے ایسے افراد جو مختلف اسباب سے مفلس ہوگئے ہیں یا وسائل معیشت کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ ان کے جسم پر اجلے کپڑے ابھی باقی ہیں۔ گھر میں تھوڑا بہت سامان بھی نکل آئے گا ممکن ہے دو چار روپے بھی جیب میں موجود ہوں اگر انہیں آج کھانا نہ ملے تو بھوکے نہیں رہیں گے ، کل نہ ملے تو برتن بیچ لیں گے ، پرسوں نہ ملے تو کپڑے فروخت کر ڈالیں گے لیکن پھر اس کے بعد تو کوئی وسیلہ معاش سامنے نہیں دیکھتے۔ فقیر اور مسکین میں اس لحاظ سے بھی فرق ہے کہ فقیر کو سوال کرنے میں عار نہیں ہوتا لیکن مسکین کو اس کی خودداری اور عفت نفسی طلب والحاح کی اجازت نہیں دیتی۔ صحیحین کی ایک حدیث میں خود آنحضرت ﷺ نے مسکین کی یہ تعریف کی ہے کہ : الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفعنم فیتصدق علیہ ، ولا یقوم فیسال الناس ۔ جسے ایسے وسائل میسر نہیں کہ تونگر کردیں جس کا فقر ظاہر نہیں کہ لوگ خیرات دیں جو خود سوال کے لئے کھڑا نہیں ہوتا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور پھر اسی حدیث میں سورة بقرہ کی آیت (273) کی طرف اشارہ فرمایا کہ : یَحْسَبُهُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ 1ۚ تَعْرِفُهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ 1ۚ لَا یَسْـَٔلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا 1ؕ ۔ ان کی خود داری کا یہ حال ہے کہ ناواقف خیال کرے کہ یہ تو تونگر ہیں ، تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو مگر وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال نہیں کرتے۔ بلاشبہ ایسے علماء دین جو سورة بقرہ کی آیت متذکرہ صدر کے مصداق ہوں کہ : الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ (2 : 273) یعنی دین کی تعلیم و خدمت کے لئے وقف ہوگئے ہوں اور فکر معیشت کے لئے وقت نہ نکال سکیں ، مساکین میں داخل ہیں بشرطیکہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو ، ما یحتاج سے زیادہ نہ لیتے ہوں اور کسی حال میں خود سائل و ساعی نہ ہوتے ہوں نیز وہمام افراد جو ان کی طرح خدمت دین و امت کے لئے وقف ہوجائیں اور معیشتکا کوئی سامان نہ رکھتے ہوں۔ قوم کے تمام ایسے افراد جن پر وسائل معیشت کی تنگی کی وجہ سے معیشت کے دروازے بند ہو رہے ہیں اور اگرچہ وہ خود پوری طرح مساعی ہیں لیکن نہ تو نوکری ہی ملتی ہے نہ کوئی اور راہ معیشت نکلتی ہے یقیناً مساکین میں داخل ہیں اور اس مد کے اولین مستحق ہیں لیکن اس کا انتظام اس طرح ہونا چاہئے کہ ان کی خیر گیری بھی ہوجائے اور ساتھ ہی ان میں بےکاری کی عادت اور اپاہج بھی پیدا نہ ہو۔ یہ بات نہ صرف ان کی اعانت میں بلکہ تمام مستحقین کی اعانت میں ملحوظ رہنی چاہئے۔ ایسے افراد جو خوشحال تھے لیکن کاروبار کی خرابی کی وجہ سے یا کسی اور ناگہانی مصیبت کی وجہ سے مفلس ہوگئے ہیں اگرچہ اپنی پچھلی حیثیت کی بنا پر معذور سمجھے جاتے ہیں۔ حکماً مساکین میں داخل ہیں اور ضروری ہے کہ اس مد سے ان کی خیرگیری کی جائے۔ 2۔ ان مصارف کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ زکوٰۃ کی ہر رقم ان سب میں وجوباً تقسیم کی جائے یا یہ ہے کہ خرچ انہی میں کی جاسکتی ہے جس مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہے ، اسی میں خرچ کی جائے ؟ تو اس بارے میں فقہاء نے اختلاف کیا لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ تمام مصارف میں بکی وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں جس وقت جیسی حالت اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہئے اور یہی مذہب قرآن و سنت کی تصریحات اور وح کے مطابق ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی (رح) اس کے خلاف گئے ہیں۔ 3۔ یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیان کئے گئے ہیں اگر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ معاملہ کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ سب سے پہلے ان دو گروہوں کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے زیادہ مقدم ہیں کیونکہ زکوٰۃ کا اولین مقصود انہی کی اعانت ہے یعنی فقراء اور مساکین۔ پھر اس گروہ کا ذکر کیا جس کی موجودگی کے بغیر زکوٰۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا اور اس اعتبار سے اس کا تقدم ظاہر ہے لیکن چونکہ اس کا استحقاق بالذات نہیں تھا اس لئے اولین جگہ نہیں دی جاسکتی تھی پس دوسری جگہ پائی یعنیالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا پھر الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ کا درجہ ہوا کہ ان کے دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویت اور حق کی اشاعت کے لئے ضروری تھا۔ پھر غلاموں کو آزاد کرانے اور قرض داروں کو بار قرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے جو نسبتاً موقت اور محدود تھے پھر فی سبیل اللہ کا مقصد رکھا گیا کہ اگر مستحقین کی پچھلی جماعتیں کسی وقت مفقود ہوگئی ہوں یا کم ہوئی ہوں یا مقتضیات وقت نے ان کی اہمیت کم کردی ہو یا مال زکوٰۃ کی مقدار بہت زیادہ ہوگئی ہو تو ایک جامع و حاوی مقصد کا دروازہ کھول دیا جائے جس میں دین و امت کے مصالح کی ساری باتیں آجائیں۔ سب کے آخر میں ابْنِ السَّبِیْلِ کی جگہ ہوئی کیونکہ تقدم میں یہ سب سے کم اور مقدار کے لحاظ سے بہت ہی محدود صورت میں پیش آنے والا مصرف تھا۔ 4۔ قرآن کی اصطلاح میں وہ تمام کام جو براہ راست دین و ملت کی حفاظت وتقویت کے لئے ہوں سبیل اللہ کے کام ہیں اور چونکہ حفظ و صیانت امت کا سب سے زیادہ ضروری کام دفاع ہے اس لئے زیادہ تر اطلاق اسی پر ہوا پس اگر دفاع درپیش ہے اور امام وقت اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ مد زکوٰۃ سے مدد لی جاتے تو اس میں خرچ کیا جائے گا اور دین و امامت کے عام مصالح ہیں مثلاً قرآن اور علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں ، مدارس کے اجزاء و قیام میں ، دعاۃ مبلغین کے قیام و ترسیل میں ، ہدایت و ارشاد و امت کے تمام مفید وسائل میں۔ 5۔ دنیا میں کوئی دین نہیں جس نے محتاجوں کی اعانت اوت ابناء جنس کی خدمت کی تلقین نہ کی ہو اور اسے عبادت یا عبادت کا لازمی جزء قرار نہ دیا ہو لیکن یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہے کو وہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں ہوا بلکہ ہر مستطیع مسلمان پر ایک خاص ٹیکس مقرر کردیا جو اسے اپنی تمام آمدنی کا حساب کر کے سال بہ سال ادا کرنا چاہئے اور پھر اسے اس درجہ اہمیت دی کہ اعمال میں نماز کے بعد اسی کا درجہ ہوا اور قرآن نے ہر جگہ دونوں عملوں کا ایک ساتھ ذکر کر کے یہ بات واضح کردی کہ کسی جماعت کی اسلامی زندگی کی سب سے پہلی شناخت یہی دو عمل ہیں ، نماز اور زکوٰۃ۔ اگر کوئی جماعت بہ حیثیت جمات کے انہیں ایک قلم ترک کردے گی تو اس کا شمار مسلمانوں میں نہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے مانعین زکوٰۃ سے قتال کیا اور حضرت ابوبکر ؓ نے کہا واللہ لا قاتلن من فرق بین الصلوٰۃ و زکوٰۃ۔ (متفق علیہ) بلاشبہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مواعظ اس بارے میں بہت دور تک چلے گئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہی نہیں کہا کہ اتنا دے دو بلکہ کہا سب کچھ دے دو لیکن چونکہ اسلام کی طرح کوئی معین نظم قائم نہیں کیا اس لئے یہ تعلیم محض زہد و ترک دنیا کا ایک اعلیٰ مقام بن کر رہ گئی اور مسیحیت کے صدر اول کے سوا ( جب کہ کلیسائی بنیاد باہمی اخوت و اشتراک پر تائم کی گئی تھی) کوئی زمانہ ایسا ظہور میں نہ آساک کہ عیسائیوں میں اس تعلیم کے نتائج نے نشو ونما پایا ہو۔ 6۔ پھر اس باب میں اس کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے ، یعنی وہ علت جو نہ صرف زکوٰۃ کے لئے بلکہ تمام صدقات و خیرات کے لئے قرار دی گئی اور جس کی وجہ سے اس معاملے نے بالکل ایک دوسری ہی نوعیت اختیار کرلی۔ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ 1ؕ (59 : 7) تاکہ ایسا نہ ہو کہ مال و دولت صرف دولت مندوں کے گروہ بہی میں محصور ہو کر رہ جائے۔ یعنی زکوٰۃ کا مقصد یہ ہے کہ دولت سب سے پھیلے۔ سب میں بٹے ، کسی ایک گروہ کی ٹھیکہ داری نہ ہوجائے اور اس سورت کی آیت (24) میں گزر چکا ہے : وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ 1ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ0034 ۔ ” جو لوگ چاندی اور سونا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے لئے اگر کوئی بشارت ہو سکتی ہے تو یہی کہ عذاب دردناک کی بشارت دے دو “ اور حدیث : (بعث معاذ الی الیمین) میں زکوٰۃ کا مقصد یہ فرمایا کہ : توخز من اغنیائھم فترد فی فقرائھم (رواہ الجماعہ) ان کے دولت مندوں سے وصول کی جائے اور پھر ان کے محتاج افراد میں لوٹائی جائے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ قرآن کی راح دولت کے احتکار و اختصاص کے خلاف ہے یعنی وہ نہیں چاہتا کہ دولت کسی ایک گروہ کی ٹھیکہ داری میں آجائے یا سوسائٹی میں کوئی ایسا طبقہ پیدا ہوجائے جو دولت کو خزانہ بنا بنا کر جمع کرے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ دولت ہمیشہ سیر و گردش میں رہے او زیادہ سے زیادہ تمام افراد قوم میں پھیلے اور منتسم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ورثہ کے لئے تقسیم و اسہام کا قانون نافذ کردیا اور اقوام عالم کے عام قوانین کی طرح یہ نہیں کیا کہ خاندان کے ایک ہی فرد کے قبضے میں رہے۔ جونہی ایک شخص کی آنکھیں بند ہوئیں اس کی دولت جو اس وقت تک تنہا ایک جگہ میں تھی اب وارثوں میں بٹ کر کئی جگہوں میں پھیل جائے گی اور پھر ان میں سے ہر وارث کے وارث ہوں گے اور اسے بانٹتے اور پھیلاتے رہیں گے۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ اس نے سود کا لین دین حرام کردیا اور قاعدہ یہ ٹھہرایا کہ : یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ اللہ سود کا جذبہ گھٹانا چاہتا ہے ، خیرات کا جذبہ بڑھانا چاہتا ہے یعنی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں۔ جس قوم میں سود کا جذبہ ابھرے گا اس کے غالب افراد شقاوت و محرومی میں مبتلا رہیں گے جس قوم میں خیرات کا جذبہ ابھرے گا اس کا کوئی فرد محتاج و مفلس نہیں رہے گا۔ اور اسی لئے اس نے سود کے معاملہ کو اتنی اہمیت دی کہ فرمایا جو لوگ اس پر مصر رہیں گے وہ اللہ اور اس رسول کے خلاف اعلان جنگ کریں گے : فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ 1ۚ (2 : 279) کیونکہ اس معاملہ پر جماعت کی بنیادی فلاح موقوف تھی اور ضروری تھا کہ اسے ایمان وانقیاد کا معیار قرار دیا جاتا اور یہی وجہ ہے کہ سورة بقرہ میں انفاق کا حکم دینے کے بعد متصاماً فرمایا : یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ 1ۚ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا 1ؕ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ 00269 (2 : 269) یعنی یہ بات کہ اپنی کمائی ایک ایک حصہ دوسرے افراد جماعت دے دینا ، کھونا نہیں ہے ، پانا ہے ، بہت دقیق بات ہے۔ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو صاحب حکمت ہیں۔ اور جس کسی نے حکمت کی دولت پائی تو اس نے بڑی سے بڑی بھلائی پالی ، وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔ 7۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور صحابہ کرام ؓ کی عملی زندگی کے مطالعہ کے بعد مجھے اس حقیقت کا پورا اذعان ہوگیا ہے کہ اسلام کے بنائے ہوئے اجتماعی نقشہ میں دولت اور وسائل دولت کے احتکار و اکتناز کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ” احتکار “ یہ کہ دولت کا کسیا یک طبقہ ہی میں محصور ہوجانا۔ اکتناز یہ کہ دولت کے بڑے بڑے خزانوں کا افراد کے پاس جمع ہوجانا اس نے سوسائٹی کی نوعیت کا جو نقشہ بنایا ہے اگر ٹھیک ٹھیک قائم ہوجائے اور صرف چند خانے ہی نہیں بلکہ تمام خانے اپنی اپنی جگہ بن جائیں تو ایک ایسا اجتماعی نظام پیدا ہوجائے گا جس میں نہ تو بڑے بڑے کروڑ پتی ہوں گے ، نہ مفلس و محتاج طبقے بلکہ ایک طرح کے درمیانی حالت غالب افراد پر طاری ہوجائے گی۔ بلاشبہ زیادہ سے زیادہ کمانے والے افراد موجود ہوں گے کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ ہی نہیں رہ سکتا لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ انفاق پر مجبور ہوگا اور اس لئے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنی ہی زیادہ جماعت بہ حیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی۔ قابل اور مستعدافراد زیادہ سے زیادہ کمائیں گے لیکن صرف اپنے لئے نہیں کمائیں گے بلکہ تمام افراد یا قوم کے لئے کمائیں گے۔ یہ صورت پیدا نہ ہو سکے گی کہ ایک طبقہ کی کمائی دوسرے طبقوں کے لئے محتاجی و مفلسی کا پیام ہوجائے جیسا کہ اب عام طور پر ہو رہا ہے۔ یہ بات کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کس طرح کی مدنیت اور اجتماعیت پیدا ہو سکتی ہے ؟ جس درجہ اہم ہے ، اتنی ہی زیادہ دقیق بھی ہے۔ 8۔ اگر مسلمان آج اور کچھ نہ کریں صرف زکوٰۃ کا معاملہ ہی احکام قرآنی کے مطابق درست کرلیں تو بغیر کسی تامل کے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تمام اجتماعی مشکلات و مصائب کا حل خود بخود ہوجائے گا۔ 9 لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں نے یا تو احکام قرآنی کی تعمیل یک قلم ترک کردی ہے یا پھر عمل بھی کر رہے ہیں تو اس طرح کہ فی الحقیقت عمل نہیں کر رہے ہیں۔ قرآن نے زکوٰۃ کا معاملہ ایک خاص نظام سے وابستہ کردیا ہے اور اسی نظام کے قائم پر اس کے تمام مقاصد و مصالح کا حصول موقوف ہے۔ زکوٰۃ ایک ٹیکس ہے ، بالکل اسی طرح کا ٹیکس جس طرح آج کل انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ پس اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ہر شخص خود ہی اپنا انکم ٹیکس نکالے اور خود خرچ بھی کر ڈالے بلکہ یہ تھا کہ حکومت اپنے کلکٹروں اور عاملوں کے ذریعہ ہر شخص سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرے اور پھر ضروریاتت وقت کے مطابق جس مصرف کو مقدم دیکھے اس میں خرچ کرے۔ جب ایک شخص نے حکومت کے مقررہ عامل کو اپنی زکوٰۃ دے دی اس کی زکوٰۃ ادا ہوگئی چناچہ اس لئے کلکٹروں اور عاملوں کی تنخواہ کا بار پھر اسی فنڈ پر ڈال دیا اور صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا جو کارندے وصولی کے لئے مقرر ہیں ان کے لئے ضروری مصارف اگر ادائیگی کے لئے یہ بات ضرور نہ ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مصارف کی مد میں مستقاماً عمال حکومت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ صاف وصریح لفظوں میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اس باب میں عمال حکومت کی اطاعت کریں اور بلاعذر زکوٰۃ ان کے حوالہ کردیں حتیٰ کہ اگر عمال ظالم ہوں یا بیت المال کا روپیہ ٹھیک طور پر خرچ نہ ہو رہا ہو جب بھی اصلاح حال کی سعی کے ساتتھ ادائیظو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ یہ نہیں کرنا چاہئے کہ زکوٰۃ خود خرچ کر ڈالی جائے۔ روایت میں ہے کہ لوگوں نے کہا : ان قوما من اصحاب الصدقۃ یعتدون علینا۔ عمال کا ایک گروہ صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتا ہے کیا اس کا مقابلہ کریں ؟ فرمایا نہیں ! (ابو داؤد) سعد بن وقاص کی روایت میں صاف صاف موجود ہے ادفعوا الیہم ماصلوا جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں زکوٰۃ انہیں دیتے رہو۔ بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظام خلافت بدل گیا اور حاکم ظلم و تشدد پر اتر آئے تو بعض لوگوں کو خیال ہوا ایسے لوگ ہماری زکوٰۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں ؟ لیکن تمام صحابہ ؓ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوٰۃ انہی کو دینی چاہئے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر ڈالو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک شخص نے پوچھا اب زکوٰۃ کسے دیں ؟ کہا وقت کے حاکموں کو۔ اس نے کہا : اذا یتخذوں بہا ثیا باوطیبا ۔ وہ تو زکوٰۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں فرمایا ” وہ اگرچہ ایسا کرتے ہوں مگر دو انہی کو۔ ‘ (ابن ابی شیبہ) کیونکہ زکوٰۃ کا معاملہ بغیر نظام کے قائم نہیں رہ سکتا۔ صدر اول سے لے کر آخر عہد عباسیہ تک یہ نظام بلا استثناء قائم رہا لیکن ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاریوں کا سیلاب تمام اسلامی ماملک میں امڈ آیا اور نظام خلافت معدوں ہوگیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کرنا چاہئے ؟ فقہاء حنفیہ کے جس قدر شروح و متون اور کتب فتویٰ آج کل متداول ہیں زیادہ تر اسی دور میں یا اس کے بعد لکھے گئے ہیں اس وقت پہلے پہل اس بات کی تخم ریزی ہوئی کہ زکوٰۃ کی رقم بطور خود خرچ کر ڈالی جائے کیونکہ غیر مسلم حاکموں کو نہیں دی جاسکتی مگر ساتھ ہی فقہاء نے اس پر بھی زود دیا کہ جن ملکوں میں اسلامی حکومت قائم نہیں رہی ہے اور اعادہ حالت فوراً ممکن نہیں وہاں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنا امیر مقرر کرلیں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہے ، معدوم نہ ہوجائے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعد کو بتدریج اس نظام کی اہمیت سے مسلمان غافل ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا زکوٰۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خود حساب کر کے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود ہی خرچ کر ڈالیں حالانکہ جس زکوٰۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حاکم دیا ہے اس کا قطعاً یہ طریقہ نہیں ہے اور مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوٰۃ کسی امین زکوٰۃ یا بیت المال کے حوالے کرنے کی جگہ خود ہی خرچ کر ڈالتی ہے وہ دیدہ دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقیناً عنداللہ اس کے لئے جواب دہ ہوگی۔ 10۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کا ایک پورا نقشہ بنایا تھا جہاں اس کے چند خانے بگڑے سمجھ لو پورا نقشہ بگڑ گیا۔ چناچہ اس ایک نظام کے فقدان نے مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی مختل کردی ہے۔ لوگ اصلاح کے لئے طرح طرح کے ہنگامے بپا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انجمنوں اور قومی چندوں کے ذریعہ وقت کی مشکلوں اور مصیبتوں کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لئے اصلی سوال یہ نہیں ، سوال یہ ہے کہ اپنے گم گشتہ طریقہ کا کھوج لگائیں۔ درازی شب و بیادری من ایم ہمہ نیست٭ زبخت من آرید تاکجا خقست اگر محض دولت مند افراد کے عطیوں اور قومی انجمنوں کے نظام سے قوم کا اقتصادی مسئلہ حل ہو سکتا تو آج یورپ اور امریکہ سے بڑھ کر کون ہے جو ان دونوں باتوں کا انتظام کرا سکتا ہے ؟ لیکن معلوم ہے کہ ان کا کوئی قومی فنڈ اور کوئی قومی نظام بھی نچلے طبقوں کی بےکاری اور متوسط طبقہ کا افلاس روک نہ سکا اور اب اجتماعی مسئلہ کا ہلاکت آفتیم خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے ، اصل یہ ہے کہ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں قوم کی اجتماعی زندگی کے قیام کے لئے کبھی کفیل نہیں ہو سکتیں اس صورت حال کا علاج صرف وہی ہے جو اسلام نے چودہ سو برس پہلے تجویز کیا تھا یعنی قانون سازی کے ذریعہ قوم کی پوری کمائی کا ایک خاص حصہ کمزور افراد کی خبر گیری کے لئے مخصوص کردینا کہ توخذ من اغنیائھم فترد فی فقرائھم اور کی لایکون دولۃ بین الا غنیاء منکم ۔ 11۔ بہرحال یہ بات یاد رہے کہ زکوٰۃ کی نوعیت عام خیرات کی سی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے پورے معنوں میں ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت نے ہر کمانے والے فرد پر لگا دیا ہے بشرطیکہ اس کی کمائی اس کی ذاتی ضروریات زندگی سے زیادہ ہو موجودہ زمانے کے انکم ٹیکسوں میں اور اس میں صرف دو باتوں کا فرق ہے ایک یہ کہ اپنی نوعیت میں یہ زیادہ وسیع ہے یعنی صرف کاروبار کی گھٹتی بڑھتی آمدنی ہی پر عائد نہیں ہوتا بلکہ اندوختہ پر بھی واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ اس سال کوئی نئی آمدنی نہ ہوئی ہو نیز اس طرح کی تمام ملکیتیں بھی اس میں داخل ہیں جو بڑھنے کی استعداد رکھتی ہوں مثلاً مویشی دوسری یہ کہ مقصد کے لحاظ سے یہ ایک خاص مصرف رکھتا ہے ، جس کی مختلف صورتیں معین کردی گئی ہیں۔ اسٹیٹ کو حق نہیں کہ ان مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے۔ 12۔ قرآن نے یہودیوں کی اس گمراہی کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے احکام شرع کی تعمیل سے بچنے کے لئے شرعی حیلے نکال لئے تھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے بھی اس گمراہی میں حصہ لیا حتیٰ کہ حیلہ کا معاملہ بعض کتب فقہ کا ایک مستقل باب بن گیا۔ ازاں جملہ ایک حیلہ زکوٰۃ کے باب میں بھی مشہور ہے۔ طریقہ اس کا یہ بتلایا جاتا ہے کہ جو شخص زکوٰۃ سے بچنا چاہے وہ کسی آدمی سے بخش دینے اور بخشوا لینے کا فرضی معاملہ کرلے اور قبل اس کے کہ برس پورا ہو اپنا تمام مال اس کے نام ہبہ کردے۔ پھر وہ برس ختم ہونے سے پہلے وہی مال اس کے نام ہبہ کردے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں پر سے باوجود مالدار ہونے کے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ مثلاً شوہر اپنی بیوی سے رجب کے مہینے میں کہہ دے کہ میں نے اپنے مال تجھے ہبہ کردیا۔ اس نے کہا قبول کیا ، اب شوہر پر زکوٰۃ نہیں رہی کیونکہ قبل اس کے کہ سال تمام ہو وہ صاحب نصاب نہ رہا۔ البتہ بیوی پر پڑگئی بشرطیکہ بارہ مہینے گزر جائیں لیکن وہ بارہ مہینے کیوں گزرنے دے گی ؟ وہ جمادی الثانی میں شوہر سے کہہ دے گی میں نے تمام مال اب تمہیں ہبہ کردیا۔ اس طرح اس نیک بخت پر سے بھی زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ قصہ کو تہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود ! لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنی فسق و ضلالت کا انتہائی مرتبہ ہے اور جو شخص اس طرح کی مکاریاں کر کے احکام الٰہی سے بچنا چاہتا ہے اس کی معصیت ان لوگوں سے بدر جہا زیادہ ہے جو سیدھی سادی طرح ترک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ ایک شخص سے جرم ہوگیا محض جرم ہے مگر یہ بات کہ ایک شخص جرم کو بےجرمی و پاک عملی بنا کر کرتا ہے صرف جرم ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور صرف اس کی عملی زندگی ہی کو نہیں بلکہ ایمان و فکر کو بھی تاراج کردینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اس طرح کے حیلوں کے چرچا پھیلا تمام سلف امت نے اس پر انکار عظیم کیا اور ائمہ و فقہاء میں کوئی نہیں جس نے انہیں جائز رکھا ہو۔ 13۔ ایک اور غلط فہمی اس باب میں پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ، اپنے مفلس رشتہ داروں کی خیر گیری کا یہی طریقہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقوم سے ان کی مد د کی جائے۔ بلاشبہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ غیروں سے پہلے اپنے محتاج رشتہ داروں کی خبر لے اور قرآن نے صدقات و خیرات کے معاملہ میں جو اصلاحات کی ہیں من جملہ ان کے ایک بڑی اصلاح یہ ہے کہ رشتہ داروں کی اعانت کو بھی خیرات قرار دے دیا بلکہ خیرات کا سب سے پہلا اور بہتر مصرف : قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (2 : 215) لیکن زکوٰۃ جو خیرات کی ایک خاص قسم ہے اس لئے واجب نہیں کی گئی کہ لوگ خیرات کی دوسری قسموں سے ہاتھ روک لیں اور محتاج رشتہ داروں کی مدد کا بوجھ بھی اسی پر ڈال دیں ، زکوٰۃ وہی دے گا جو صاحب استطاعت ہو اور اگر ایک شخص خوشحال ہے اور اس کے رشتہ دار تنگی و محتاجی میں مبتلا ہوگئے ہیں تو بہ حیثیت مسلمان ہونے کے اس کا فرض ہے کہ ان کی خبرگیری کرے۔ اگر نہیں کرے گا تو یقیناً عنداللہ جواب دہ ہوگا کیونکہ صلہ رحمی کا حق خدا کا ٹھہرایا ہوا حق ہے : وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ 1ؕ (4 : 1) بلاشبہ اس کی خبرگیری اس کے لئے خیرات کا بہترین عمل ہوگی لیکن خبرگیری ہر حال میں اس کا اسلامی فرض ہے۔ یہ طریقہ کسی خاص حال میں بھی شرعی نہیں ہو سکتا کہ باوجود خوشحال ہونے کے اپنے رشتہ داروں کو فقر و فاقہ میں چھوڑ دیا جائے اور پھر اگر کچھ دیا بھی جائے تو اسے زکوٰۃ کی مد میں شمال کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کوئی خاص اسلامی عمل ہی نہیں ترک کردیا ہے بلکہ ان کی پوری زندگی غیر اسلامی ہوگئی ہے ان کی فکری حالت غیر اسلامی ہے ، ان کی عملی حالت غیر اسلامی ہے ، ان کا دینی زاویہ نگاہ غیر اسلامی ہوگیا ہے وہ اگر اسلامی احکام پر عمل بھی کرنا چاہتے ہیں تو غیر اسلامی طریقہ سے اور یہ دینی تنزل کی انتہا ہے۔ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا 0078 (4 : 78) 14۔ ایک عام اور سب سے زیادہ مہلک غلط فہمی یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں زکوٰۃ دے دینے کے بعد انفاق و خیرات کے تمام اسلامی فرائض ختم ہوجاتے ہیں۔ جہاں ایک شخص نے رمضان میں اٹھنیوں اور روپیوں کی پڑیاں باندھ کر تقسیم کے لئے رکھ دیں سال بھر کے لئے اسے ہر طرح کے انسانی و اسلامی تقاضوں سے چھٹی مل گئی۔ حالانکہ ایسا سمجھنا یک قلم اسلام کو بھلا دینا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو جس طرح کی زندگی بھر کرنے کی تلقین کی ہے وہ محض اپنی اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ ہی کی زندگی نہیں ہے ، بلکہ منزل ، خاندانی ، معاشرتی ، جماعتی اور انسانی فرائض کی ادائیگی کی ایک پوری آزمائش ہے اور جب تک ایک انسان اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا اسلامی زندگی کی لذت اس پر حرام ہے۔ اس پر اس کے نفس کا حق ہے ، اس کے والدین کا حق ہے ، رشتہ داروں کا حق ہے ، بیوی بچوں کا حق ہے ، ہمسایہ کا حق ہے اور پھر تمام نوع انسانی کا حق ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق یہ تمام فرائض ادا کرے اور انہی فرائض کی ادائیگی پر اس کی زندگی کی ساری دنیوی اور اخروی سعادتیں موقوف ہیں : وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ 1ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ (4 : 36) یہ تمام فرائض ادا نہیں کئے جاسکتے جب تک کہ انفاق و خیرات کے لئے انسان کا ہاتھ کشادہ نہ ہوجائے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعمال میں سے کسی عمل پر اتنا زور نہیں دیا جس قدر نماز اور انفاق پر اور منافقوں کی سب سے بڑی پہچان اس صورت میں یہ بتلائی کہ ان کی مٹھیاں بند رہتی ہیں۔ انفاق کے لئے کھلتی نہیں : وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَهُمْ 1ؕ(9 : 67) اور اگر کچھ دیتے بھی ہیں تو مجبور ہو کر : وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ ہُمْ کٰرِهُوْنَ 0054 (9 : 54) اور مومنوں کی نسبت فرمایا : یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً (2 : 274) مومن وہ ہیں جن کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ رات دن ، پویشدہ اور ظاہر ہر حال میں سرگرم انفاق رہتے ہیں۔ نیز فرمایا یہ شیطانی خیال ہے کہ خرچ کرنے سے ہم محتاج ہوجائیں گے اور اس راہ میں بخل ” فحش “ ہے یعنی سخت قسم کی برائی اور اللہ انفاق کا حکم دے کر تمہیں مغفرت اور خوشحالی کی راہوں پر لگاتا ہے : اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ 1ۚ وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًا 1ؕ(2 : 268) پس یہ سمجھنا کہ جہاں سال میں ایک مرتبہ زکوٰۃ کا ٹیکس دے دیا انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالبات پورے ہوگئے ، صریح قرآن کی تعلیم سے اعراض کرنا ہے۔ زکوٰۃ تو ایک خاص قسم کا ٹیکس ہے اور ایک خاص مقصد کے لئے لگایا گیا ہے جو سال میں ایک مرتبہ دینا پڑتا ہے لیکن ہماری زندگی کا ہر چوبیس گھنٹہ ہم نے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر ہم اسلامی زندگی کا توشہ لے کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حسب استطاعت اس کے تمام مطالبات پورے کریں۔ 15۔ دنیا میں دولت اور وسائل دولت کا احتکار اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ضروری تھا اس کا رد عمل پیدا ہو چناچہ اٹھارویں صدی میں موجودہ سو شلزم کی بنیادیں پڑیں اور رفتہ رفتہ اس نے کمیونزم کی انتہائی صورت اختیار کرلی اور روس میں کچھ ہی دیر چل کر دم توڑ گیا اور اس وقت چین وغیرہ میں کٹا پھٹا چل رہا ہے۔ اس پر قدرتی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن کریم سرمایہ داری کے مقاصد مٹانا چاہتا ہے اور دولت کی تقسیم کا حامی ہے تو کیا یہی سوشلزم نہیں ؟ بالکل نہیں اس لئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کا رخ بالکل الگ ہے۔ بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ سو شلزم نے قرآن سے راہنمائی حاصل کی ہو لیکن اس کا صحیح رخ بہرحال وہ نہ سمجھ سکا اس لئے یہ دو صورتیں الگ الگ ہیں اور ضروری ہے کہ دونوں کا فرق ملحوظ رکھا جائے۔ ایک صورت یہ ہے کہ دولت اور وسائل کا احتکار روک دیا جائے اور ہر کمانے والے فرد کو قانون سازی کے ذریعہ مجبور کیا جائے کہ اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ کمزور افراد کے لئے نکالے۔ نیز اسٹیٹ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ کوئی فرد ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے لیکن ساتھ ہی یہ اصل بھی تسلیم کی جائے کہ معیشت کے لحاظ سے تمام افراد و طبقات کی حالت یکساں نہیں ہو سکتی اور یہ عدم یکسانیت اکثر حالتوں میں قدرت ہے کیونکہ سب کی دماغی استعداد اور جسمانی طاقت یکساں نہیں اور جب استعداد یکساں نہیں تو ناگزیر ہے کہ جدوجہد معیشت کے ثمرات بھی یکساں نہ ہوں۔ بہ الفاظ دیگر انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کرلیا جائے کہ جو جس قدر حاصل کرسکتا ہے وہ اس کا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف دولت کا احتکار ہی نہ روکا جائے بلکہ دولت کی انفرادی ملکیت بھی ختم کردی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں اجباری قوانین کے ذریعہ اقتصادی اور معیشی مساوات کی حالت پیدا کردی جائے۔ مثلاً وسائل دولت تمام تر قومی ملکیت ہوجائیں ، انفرادی قبضہ باقی نہ رہے اور جسمانی و دماغی استعداد کے اختلاف سے معیشت کا مختلف ہونا بنائے حق تسلیم نہ کیا جائے۔ اس لئے اگر نظام سرمایہ داری صحیح نہیں تو سوشلزم کو بھی درست نہیں کہا جاسکتا۔ قرآن نے جو صورت اختیار کی ہے وہ پہلی ہے اور سوشلزم جس بات کے لئے ساعی ہے وہ دوسری ہے۔ دونوں کا مقصد یہ ہے کہ انسانی اکثریت کی شقاوت دور کی جائے۔ دونوں نے علاج بھی ایک ہی تجویز کیا ہے یعنی دولت کا اکتناز روکا جائے لیکن دونوں کا طریق کار ایک نہیں ایک اختلاف معیشت سے تعرض نہیں کرتا اورا سے قائم رکھ کر راہ نکالتا ہے ، دوسرا اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ پہلا قرآنی نظام ہے اور دوسرا سوشلزم۔ اسلام اور سوشلزم کا یہ اختلاف اگرچہ محض درجہ (ڈگری) کا اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن تہ میں مبدء کا اختلاف بھی موجود ہے۔ سوشلزم کا نظریہ یہ ہے کہ مدارج معیشت کا اختلاف کوئی قدرتی اختلاف نہیں ہے لیکن قرآن میں اس طرح کے اشارات جا بجا پائے جاتے ہیں کہ یہ اختلاف قدرتی ہے اور ضروری تھا کہ ظہور میں آئے وہ کہتا ہے اگر یہاں سب کی حالت یکسان ہوجاتی تو تزاحم و تنافس کی حالت پیدا نہ ہوتی اور اگر یہ حالت پیدا نہ ہوتی تو انسان کی قدرتی قوتوں کے ابھرنے اور ترقی پانے کے لئے کوئی شے محرک بھی نہ ہوتی اور اجتماعی زندگی کی وہ تمام سرگرمیاں ظہور میں نہ آتیں جن سے یہ تمام کارخانہ چل رہا ہے۔ سوشلزم انسانی اختراع ہے اور قرآنی نظام خالق کائنات کا دیا ہوا۔ افسوس کہ انسانی اختراع کا تجربہ اس ملک عزیز میں بھی کیا گیا لیکن قرآن کریم کے دیئے ہوئے نظام کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا۔ قرآنی نظام معیشت کے لئے درج ذیل آیت پر غور کرو۔ فرمایا : وَ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ 1ؕ اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (رح) 00165 (6 : 165) اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور بعض کو بعض پر مرتبے دیئے تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے ، اس میں تمہیں آزمائے ، بلاشبہ تمہارا پروردگار ( بدعملیوں کی) فوراً سزا دینے والا ہے اور بلاشبہ وہ بڑا بخش دینے والا ، رحمت والا ہے۔ اس آیت میں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : اولاً خدا نے انسانی زندگی کا کارخانہ کچھ اس طرح چلایا ہے کہ یہاں ہر گوشہ میں ایک طرح کی جانشینی کا سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ایک فرد اور گروہ جاتا ہے ، دوسرا فرد اور گروہ اس کی جگہ لیتا ہے اور اس کے ثمرات و نتائج سعی کا وارث ہوتا ہے۔ ثانیاً : درجے کے لحاظ سے سب یکساں نہ ہوئے بعض اوپر ہوئے بعض ان سے نیچے۔ ثالثاً : مدارج معیشت کی بلندی و پستی اس لئے ہوئی تاکہ انسان کے عمل و تصرت کے لئے آزمائش کی حالت پیدا ہوجائے اور ہر فرد اور ہر گروہ کو موقع دیا جائے کہ اپنی سعی و کاوش سے جو درجہ حاصل کرسکتا ہے ، حاصل کرلے آخر میں فرمایا : خدا کا قاننو جزاء سست رفتار نہیں یعنی سعی و طلب کی اسی امتحان گاہ سے جزاء عمل کا معاملہ وابستہ ہے جیسے جس کے اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج اسی کے حصے میں آئیں ہے۔ اسی طرح جا بجا قان میں پاؤ گے : وَ اللّٰهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ 1ۚ(16 : 71) خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے : نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (43 : 32) دنیوی زندگی کی معیشت ہم نے لوگوں میں تقسیم کردی اور اس کا کارخانہ ایسا بنا دیا کہ سب ایک ہی درجہ میں نہیں ہیں کوئی کسی درجہ میں ہے ، کوئی کسی درجہ میں۔ بہر حال قرآن نے اجتماعی مسئلہ کا جو حل تجویذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مدارج معیشت کی مساوات قائم نہیں کرنا چاہتا لیکن حق معیشت کی مساوات ضرور قائم کرتا ہے ، یعنی وہ کہتا ہے یہ بات ضروری نہیں کہ سب کو ایک ہی طرح پر سامان معیشت ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ ملے سب کو اور سعی و ترقی کی راہ یکساں طور پر سب کے سامنے کھل جائے ، اس نے ہر طرح کے نسلی ، خاندانی ، جغرافیائی اور طبقاتی امتیاز مٹا دیئے۔ اس نے زندگی کے ہر میدان میں انسانی مساوات کا اعلان کردیا۔ اس نے وہ تمام رکاوٹیں دور کردیں جو سوسائٹی کے اونچے طبقے نے کمزور افراد کی خوشحالی و ترقی کی راہ میں پیدا کردی تھیں۔ اس نے قانون سازی کے ذریعہ دولت کا احتکار و اختصاص روک دیا ۔ اس نے زندگی کے ہر گوشہ میں دولت کے اکتناز کی جگہ دولت کی تقسیم پر زور دیا ، اس نے اس بات سے قطعاً انکار کردیا کہ دولت مندی بجائے خود کوئی حق ہے ، اس نے بےاعتدالانہ سرمایہ داری کی تمام راہیں روک دیں۔ اس نے سود کی ہر شکل حرام کردی ، اس نے جوئے کو کسی حال میں جائز نہ رکھا۔ پھر ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ انسانی زندگی کے اعمال حق میں انفاق فی سبیل اللہ کو سب سے نمایاں جگہ دی اور ہر کمانے والے فرد کو سالانہ ٹیکس کے ذریعہ مجبور کردیا کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ دوسروں کے لئے بھی نکالے۔ بس یہ نقشہ ہے جو اسلام نے اجتماعی نظام کا بنایا ہے۔ لیکن سوشلزم صرف اتنے پر قانع نہیں رہنا چاہتا وہ آگے بڑھ کر انفرادی ملکیت ختم کر کے اس کی جگہ قومی ملکیت کا نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کی یہ دعوت بھی یقیناً غیر فطری ہے یہی وجہ ہے کہ جب اس نے سر نکالا اس کے سر پھوڑ نے والے اس کے گرد ہوگئے اور ہر طرف سے اس پر مار پڑی کہ اب وہ دم توڑتا نظر آرہا ہے حالانکہ اس کے مفاسد نظام سرمایہ داری کے مفاسد سے بہر حال کافی حد تک کم تھے۔ جس طرح نظام خلافت کو ختم کر کے شاہی نظام کا تجربہ کیا گیا اور اس کی جگہ اب جمہوریت نے لے لی حالانکہ یہ جمہوریت سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایک فرد کی حکومت نہ ہو بلکہ ایک جماعت کی ہو حالانکہ جس قدر ایک فرد کی حکومت میں فاسد تھے اس سے سو گنا زیادہ مفاسد اس جماعتی حکومت میں موجود ہیں اور حقیقی نظام وہی شورائی ہے کہ شوریٰ ایک فرد کا محاسبہ کرے اور اس کو سیدھا رکھے اور پوری عوام کو اس سے بالکل الگ رکھا جائے۔ اس وقت دونوں نظام پھنسے ہوئے ہیں نظام معیشت بھی اور نظام حکومت بھی لیکن ان دونوں کا صحیح حل صرف اور صرف قرآن کریم کی تعلیمات ہی سے مکن ہے دیکھتے ہیں کہ وہ وقت کب آتا ہے۔ تاہم اب فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کو موقع دیا جائے۔ وَ لَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِیْنٍ (رح) 0088
Top