Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 80
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠ ۧ
اِسْتَغْفِرْ
: تو بخشش مانگ
لَهُمْ
: ان کے لیے
اَوْ
: یا
لَا تَسْتَغْفِرْ
: بخشش نہ مانگ
لَهُمْ
: ان کے لیے
اِنْ
: اگر
تَسْتَغْفِرْ
: آپ بخشش مانگیں
لَهُمْ
: ان کے لیے
سَبْعِيْنَ
: ستر
مَرَّةً
: بار
فَلَنْ يَّغْفِرَ
: تو ہرگز نہ بخشے گا
اللّٰهُ
: اللہ
لَهُمْ
: ان کو
ذٰلِكَ
: یہ
بِاَنَّهُمْ
: کیونکہ وہ
كَفَرُوْا
: انہوں نے کفر کیا
بِاللّٰهِ
: اللہ سے
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
لَا يَهْدِي
: ہدایت نہیں دیتا
الْقَوْمَ
: لوگ
الْفٰسِقِيْنَ
: نافرمان (جمع)
آپ ﷺ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں آپ ﷺ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا ، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر کبھی راہ نہیں کھولتا
منافقین کے حق میں سخت گیری کی تاکید مزید اور استغفار کی ممانعت : 106: پیچھے آیت 73 میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر سختی کرنے کا حکم فرمایا۔ اس آیت نے اس سختی کی تشریح فرما دی کہ وہ سختی آپ کس طرح فرمائیں ؟ حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ تو سراپا رحمت و شفقت تھے اس وجہ سے ان منافقین کی تمام شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کے باوجود ان کی اصلاح اور نجات میں لگے رہے اور ان کی فلاح آپ ﷺ کو اس قدر عزیز تھی کہ آپ ان کے لئے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ برابر اپنے رب کریم سے مغفرت طلب کرتے تھے یعنی دوسرے مسلمانوں کے ساتتھ ساتھ ان نام کے مسلمانوں کی اصلاح و فلاح کی دعائیں بھی کرتے رہتے تھے لیکن ان کی شقاوت اس قدر بڑھ گئی کہ یہ اس بات کو بھی گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی دوسرا بھی اسلام کی خیر خواہی کرے بلکہ یہ لوگ ہر خیرا خواہ کے حوصلہ کو پست کرتے رہے۔ اب آپ کو اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ آئندہ ایسے لوگوں کے لئے آپ مغفرت کی دعا مطلق نہ کریں لیکن اگر آپ کریں گے بھی تو اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کو کسی حال میں بھی بخشا نہیں جائے گا اور تاکید کے لئے اللہ نے فرمایا کہ آپ ستربار بخشش طلب کریں تو بھی ان کو نہیں بخشا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہاں ستر بار سے عدد گنتی مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے کہ آپ چاہیں کتنی بھی بخشش ان کے لئے طلب کریں ان کو ہرگز ہرگز نہیں بخشا جائے گا کیونکہ ان کا حا تمہ ہی منافقت پر ہونے والا ہے اور فیصلہ علم الٰہی کا ہے۔ ” اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا۔ “ اس لئے کہ مغفرت کی بنیاد یعنی ایمان ہی سرے سے مفقود ہے اور منافقین کے حق میں دعا اور عدم دعا دونوں عدم نفع کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین مدینہ کا رئیس و سردار تھا لیکن اس کا بیٹا عبداللہ سچا مومن اور مخلص تھا۔ باپ کے مرنے پر آکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں اس کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ آپ اٹھے اور حضرت عمر ؓ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی عرض کرنے کا باوجود آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ علاوہ ازیں اپنا پیراہن عطا کرنے کی روایات بھی موجود ہیں۔ آپ ﷺ کے جنازہ پڑھانے کے بعدو لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ الخ آیت نازل ہوئی جو آگے آرہی ہے۔ ان آیات اور آپ ﷺ کے اس عمل سے لوگوں کے سارے طبقات نے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ صوفیائے کرام نے اپنے مزاج کے مطابق ، علمائے کرام نے اپنے مزاج کے مطابق ، مفتیوں نے اپنے مزاج کے مطابق ، مفسرین نے اپنے مزاج کے مطابق ، سیاسیی مزاک کے لوگوں نے اپنے مزاج کے مطابق اور محققین نے اپنے مزاج کے مطابق اور اسی طرح متقدمین نے اپنے مزاج کے مطابق لیکن ہم ان ساری باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ غور کرو کفر و نفاق کتنی سخت چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے پیغمبر بر حق اور وہ بھی نبی اعظم و آخر ﷺ تک کی سفارش بےاثر رہتی ہے اس لئے اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہئے۔ نیز یہ کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی موجودگی میں نفاق تھا اور آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی حقیقت کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔ قرآن کریم نے ” کفر “ کی طرح ” نفاق “ کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے اور منافقوں کے اعمال و خصائل کی سب سے زیادہ تفصیل اسی صورت میں ملتتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے کہ نفاق کی حقیقت کیا ہے اور منافقوں کی جماعت کس طرح کی جماعت تھی ؟ 1۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو تین طرح کے آدمی ضرور ہوتے ہیں : 1 ۔ مستعد اور صالح طبیعتیں ، یہ ہر اچھی بات کو پہچان لیتی اور قبول کرلیتی ہیں اور پھر سر گرم عمل بھی ہوجاتی ہیں۔ 2 ۔ مفسد طبیعتیں ، انہیں ہر اچھی بات سے انکار ہوتا ہے۔ کوئی سیدھی بات ان کے اندر اترتی نہیں۔ 3 ۔ درمیانی گروہ ، ہر بات کو سن لینے اور مان لینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے لیکن فی الحقیقت اس کے اندر تیاری نہیں ہوتی وہ قدم اٹھا دیتا ہے مگر چلنا نہیں چاہتا اور چلتا ہے تو پہلے ہی قدم پر لڑکھڑا جاتا ہے۔ اس میں پہلے گروہ کی مستعدی نہیں ہوتی کہ جو بات مان لی اسے ٹھیک ٹھیک مان لے اور عمل کرے۔ اس میں دوسرے گروہ کی بےباکی و جرات بھی نہیں ہوتی کہ یکسو ہو کر صاف صاف انکار کردے۔ پس گو وہ سمجھتا ہے کہ ایک راہ اختیار کرلی ہے لیکن فی الحقیقت دونوں راہوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقرار کا تعلق ہے قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے ، جہاں تتک اذھان و عمل کا تعلق ہے منکروں کی سی جماعت میں۔ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ 1ۖۗ لَاۤ اِلٰى ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى ہٰۤؤُلَآءِ (4 : 143) جزم و یقین اور عزم و عمل پہلے گروہ کا خاصا ہے۔ انکار و حجود دوسرے کا اور شک و تذبذب اور بےعملی کا تعطل تیسرے کا۔ بعینہ یہی حال ایمان و عمل کے دائرہ کا بھی ہے۔ یہاں بھی طبیعت انسانی کی یہ تینوں حالتیں ظہور میں آتی ہیں۔ مستعد طبیعتیں قبول کرلیتی ہیں۔ ” یہ مومن ہیں “ مفسد انکار کرتے اور مخالفت میں سرگرم ہوجاتے ہیں ” یہ کافر ہیں “ کچھ لوگ قبول کرلیتے ہیں لیکن فی الحقیقت قبولیت کی روح ان کے اندر نہیں ہوتی۔ ” یہ منافق ہیں۔ “ 2۔ قرآن نے کفر کی طرح نفاق کے اعمال و خصائص بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کئے کیونکہ کفر کی طرحنفاق بھی محض عہد نزول ہی کی پیداوار نہ تھا ، ہمیشہ ظہور میں آنے والی گمراہی تھی اور انسان کی گمراہیاں کسی خاص عہد و نسل کی نہیں بلکہ نوع انسانی کی گمراہیاں ہوتی ہیں ی۔ 3۔ ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ، منافقوں کا گروہ کافروں کا کوئی خاص سازشی گروہ تھا جو جاسوسوں کی طرح بھیس بدل کر مسلمانوں میں رہنے لگا تھا ، باہر نکلتا تو مسلمان بن جاتا ، اکیلے میں ہوتا تو اپنے اصلی بھیس میں لوٹ آتا حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن و حدیث کی صاف صاف تصریحات کو جھٹلانا ہے۔ ان لوگوں نے اسلام بطور اپنے دین و اعتقاد کے اسی طرح اختیار کرلیا تھا جس طرح دوسرے مسلمانوں نے۔ چناچہ اسی سورت کی آیت (74) میں ہے کہ : وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ اسلام لا کر پھر کفر کی باتیں کیں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے۔ ان کی بیویاں انہیں مسلمان سمجھتی تھیں ، ان کے بچے انہیں مسلمان سمجھتے تھے ، ان کے گھر کا ہر فرد یقین کرتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ وہ نماز پڑھتے تھے ، روزہ رکھتے تھے۔ اسلام کے طریقے پر اولاد کی پرورش کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سرغنہ تھا لیکن اس کا لڑکا منافق نہ تھا ، مخلص مومن تھا۔ اسی طرح تمام منافوں کی اولاد احفاد مخلصوں کی جماعت نکلی جہاں تک کسی دین کو بطوع ایک دین کے اختیار کے لینے کا تعلق ہے ، کوئی بات ایسی نہ تھی جو بظاہر ان کے مسلمان ہونے کے خلاف ہو تاہم قرآن نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں کیونکہ اسلام کا گھونٹ تو انہوں نے پی لیا تھا لیکن حلق کے پیچھے نہیں اترا تھا۔ کسی تعلیم کو اختیار کرلینے کے بعد یقین و عمل کی جو روح پیدا ہونی چاہئے تھی اس سے یک قلم محروم تھے۔ اخلاص اور صداقت کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اللہ کا کلام سنتے مگر اس لئے نہیں کہ عمل کریں بلکہ اس لیئے کہ محض سنتے رہیں۔ وہ نماز پڑھتے مگر بےدلی کے ساتھ ، وہ خیرات کرتے مگر مجبور ہو کر۔ ان کے دلوں میں دین سے زیادہ دنیا کا عشق تھا۔ اسلام کے جو احکام ان کے شخصی اغراض کے خلاف نہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے مومن تھے ، جب کبھی قربانیوں کا موقع آجاتا تو سب سے آخری صفوں میں بھی دکھائی نہ دیتے۔ جہاد کے تصور سے ان کی روحیں لرز جاتیں۔ انفاق کا حکم ان کے لئے پیام موت ہوتا۔ اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے دونوں طرح ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے اگر بازی الٹ پڑی اور دشمن فتح مند ہوگئے تو ان کے پاس بھی اپنی جگہ بنی رہے گی۔ ایمان و کفر کی طرح نفاق کی تمام حالتیں بھی یکساں نہیں اور نہیں تھیں چونکہ اصل کے اعتبار سے یہ حالت بھیا نکار ہی کی ایک اقرار نما صورت ہے اس لئے جب بڑھتی ہے تو انکار قطعی ہی کی طرف بڑھتی ہے اور اسی کے خصائص رونما ہونے لگتے ہیں کسی میں کم ، کسی میں زیادہ۔ چناچہ اس عہد کے منافقوں کی حالت یکساں نہ تھی۔ عبداللہ بن ابی کا نفاق ہر منافق کا نفاق نہ تھا۔ خود قرآن نے اسی صورت کی آیت (101) میں اس طرف اشارہ کیا ہے : وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ 1ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ 1ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ 1۫ کسی کے نفاق کا رخ زیادہ تر اس طرف تھا کہ ہجرت سے جی چراتے تھے ، کسی پر انفاق مال شاق تھا ، کوئی جہاد سے بچنا چاہتا تھا ، کسی پر نماز کا قیام سخت گزرتا تھا ، کوئی ایسا تھا کہ احکام الٰہی اور آیات قرآنی کی ہنسی اڑاتا تھا اور اس تاک میں تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی آفت آپڑے تتو کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ ہوجا۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ ان سب نے اسلام بطور اپنے دین و طریقہ کے قبول کرلیا تھا اور مسلمانوں ہی میں سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ محض ایک سازشی گروہ بھیس بدل کر مسلمانوں میں آملا ہو اور مسلمانوں میں سے نہ ہو۔ 4۔ اب غور کرو ، یہاں منافقوں کے اعمال و خصائص کیا کیا بیان کئے ہیں : (ا) جب راہ حق میں جان و مال کی قربانی کا وقت آتا تو طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے اور کہتے ہمیں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے۔ (ب) مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ پھیلاتے۔ کمزور اور ناسمجھ آدمیوں کو گمراہ کرتے۔ ادھر کی بات ادھر کو لگاتے۔ (ج) جب کبھی جماعت کے لئے کوئی نازک وقت آجاتا تو اس طرح کی باتیں نکالتے کہ دوسروں کے دل بھی کمزور پڑجاتے اور کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ چناچہ احد میں انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر بھی کمی نہیں کی۔ (د) دینداری کے بھیس میں اپنا نفاق چھپاتے اور کہتے ، اس کام میں ہمارے لئے فتنہ ہے اس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ (ہ) مسلمانوں کی مصیبت ان کے لئے مصیبت نہیں ہوتی اور نہ ان کی خوشی ان کے لئے خوشی۔ (و) وہ کوئی جماعتی معاملہ پیش آجائے تو اس کا ہاتھ نہ دیتے اور طرح طرح کی فتنہ اندازیاں کرتے پھر اگر کوئی حادثہ پیش آجاتاتو کہتے ہم نے پہلے ہی یہ معلوم کرلی تھی اس لئے ساتھ نہیں دیا تھا اور پھر بجائے اس کے کہ قوم کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھیں۔ دل میں خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہوا ، کامیاب ہوئے۔ (ز) نماز پڑھیں گے تو اس بےدلی سے کہ معلوم ہوگا ایک بوجھ آپڑا ہے اور چاہتے ہیں کسی نہ کسی طرح ٹپک کر الگ ہوجائیں۔ (ح) نیکی کی راہ میں خوش دلی سے کبھی خرچ نہ کریں۔ کنجوسی ان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ (ط) قسمیں کھا کھا کر یقین دلائیں گے کہ ہمیں مخالف نہ سمجھو حالانکہ دل میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ (ی) چونکہ دلوں میں کھوٹ ہے ، اس لئے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور بہت سے کال دل کی خواہش سے نہیں بلکہ محض جماعت کے خوف سے کرتے ہیں۔ (ک) چونکہ راہ حق کی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں اور دل میں اخلاق و یقین نہیں ہے اس لئے بسا اوقات صورت حال سے ایسے مضطرب ہوجاتے ہیں کہ اگر چھپ بیٹھنے کی کوئی جگہ مل جائے تو فوراً رسی تڑا کا بھاگ کھڑے ہوں۔ (ل) غرض کے بندے ہیں۔ ان کی خوشنودی اور ناراضگی کا سارا دارومدار دنیا اور دنیا کا حصول ہے۔ اگر صدقات کی تقسیم میں انہیں بھی کچھ دے دیا جائے تو خوش رہیں گے ، نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھیں گے۔ (م) چونکہ ایمان اور راستی سے محروم ہیں ، اس لئے حق و ناحق کی کچھ پروا نہیں۔ جس طرح بھی ملے مال و دولت حاصل کرنی چاہئے۔ صدقات و خیرات کے مستحق نہیں لیکن اس کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں۔ (ن) اگر ان کی ہوائے نفس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو فوراً طعنہ زنی پر اتر آئیں کہ دوسروں کی طرف داری کی جاتی ہے۔ (س) پیغمبر اسلام محض مومنوں کا اخلاص پہچانتے اور انہیں قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ یہ بات منافقوں پر شاق گزرتی تھی کہ بعضوں نے کہا وہ کان کے کچے ہیں اور لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ (ع) جب دیکھتے ہیں ، ان کی منافقانہ روش پر عام برہمی پیدا ہوگئی تو قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلاتے اور انہیں اپنے سے راضی رکھنا چاہتے قرآن کہتا ہے ، ان کی حق فراموشی دیکھو۔ انہیں خدا کی تو کچھ پروا نہیں کہ بدعملیاں کئے جاتے ہیں لیکن انسانوں کی اتنی پروا ہے کہ جونہی ان کی نگاہیں بدلی ہوئی نظر آئیں ، لگے خوشامد کرنے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے۔ فی الحقیقت انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں میں سے ایک عجیب بوالعجبی یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدعی ہوتا ہے اور اجنتا ہے کہ اس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ تاہم ہر طرح کی معصیتیں کئے جائے گا اور ایک لمہہ کے لئے اسے یہ خیال نہ ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں ؟ لیکن جونہی انسانوں کی نظر میں اس کی معصیتیں نمایاں ہوئیں ، اس کے ہوش و حواس گم ہوجائیں گے اور ہزار طرح کے جتن کرے گا کہ کہیں وہ اسے برا نہ سمجھنے لگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت اسے خدا کی ہستی کا یقین نہیں کیونکہ اگر یقین ہوتا ، اسی درجہ کا یقین ، جس درجہ کا یقین انسانوں کی موجودگی پر رکھتا ہے ، تو ممکن نہ تھا کہ اس سے بےپروا ہوجاتا۔ قرآن کہتا ہے یہی حالت نفاق کی حالت ہے۔ (ف) دین کے بارے میں ان کی زبانیں چھوٹ ہیں لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے بطور تفریح اور مزاح کے ایک بات کہہ دی تھی۔ سچ مچ تو ہمارا مطلب یہ نہ تھا۔ قرآن کہتا ہے ، یہ عذر گناہ بد تزار گناہ ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا تم اللہ ، اس کی آیتوں کی ، اس کے رسول کی ہنسی اڑاتے ہو۔ (ص) جس طرح مومن مرد اور عورت راہ حق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں ، اسی طرح منافق راہ نفاق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں۔ (ق) کذب گوئی ان کا شعار ہے۔ صریح ایک بات کہیں گے اور پھر انکار کردیں گے۔ (ر) بعضوں کا یہ حال ہے کہ عہد کرتے ہیں خدایا ، اگر تو ہم پر فضل کرے تو ہم تیری راہ میں خیرات کریں گے اور نیکی کی زندگی بسر کریں گے لیکن جب اللہ فضل کرتا ہے تو پھر بےتامل بخیلی پر اتر آتے ہیں اور کچھ اس کی راہ میں نہیں نکالتے۔ اس کی طرف سے رخ پھیرے رہتے ہی۔ (ش) ان کا ایک وصف یہ ہے کہ خود تو کچھ کریں گے نہیں لیکن کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے میں ہمیشہ بےباک رہیں گے۔ مثلاً اگر خوش حال آدمیوں نے بڑی بڑی رقمیں راہ حق میں نکالیں تو کہیں گے ، دکھاوے کے لئے یا دنیوی غرض کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی محنت مزدوری کی کمائی میں سے چار پیسے نکال کر رکھ دے تو اس کی ہنسی اڑائیں گے کہ واہ اچھی خیرات کی۔ (ت) راہ حق میں محنتیں ، مشقتیں برداشت کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ غزوہ تبوک کا معاملہ سخت گرمی میں پیش آیا تھا ، اس لئے لوگوں سے کہتے تھے اس گرمی کہاں جاتے ہو ؟ (ث) ایمان کے ضعف نے انہیں مردانگی کے احساس و غیرت سے بھی محروم کردیا ۔ جب لوگ قوم وملت کی راہ میں جان و مال قربان کرتے ہیں اور تو وہ عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ (خ) بعض لوگ دین داری کے بھیس میں ایسی راہیں نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے۔ مثلاً ایک مسجد بنائی اور پیغمبر اسلام ﷺ سے عرض کیا ، آپ اس میں نماز پڑھا دیں تو ہمارے لئے برکت وسعادت ہو۔ مقصود یہ تھا کہ اپنے اجتماع کے لئے ایک نیا حلقہ پیدا کریں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو۔ (ذ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کی حالت میں شب و روز رہتے رہتے بڑے مشق ہوگئے ہیں۔ دوسرے اتنے مشاق نہیں جو مشاق ہیں تم انہیں تاڑ نہیں سکتے۔ (ض) کوئی سال نہیں گزرتا کہ ان کے لئے تنبیہہ و اعتبار کی کوئی نہ کوئی بات ظہور میں نہ آجاتی ہو لیکن غفلت کا یہ حال ہے کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں ، نہ عبرت پکڑتے ہیں۔ 5۔ سورة آل عمران ، نساء ، الانفال ، احزاب ، محمد ، فتح ، حدیہ ، مجادلہ اور حشر میں بھی منافقوں کے اعمال و خصائص بیان کئے گئے ہیں اور ایک پوری سورت منافقون انیی کے حالات میں ہے۔ چاہئے کہ اس موقع پر فہرست سے مدد لے کر وہ تمام مقامات بھی دیکھ لئے جائیں۔ 6۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سورة بقر کی آیت (8) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۘ008 میں اور اس کی بعد کی آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، اس سے مقصود منافقوں کی یہ جماعت نہیں ہے بلکہ یہود ونصاریٰ ہیں جو ایمان اللہ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقتاً ایمان کی روح ان میں باقی نہیں رہی تھی۔ فی الحقیقت یہ حالت بھی نفاق ہی کی حالت ہے۔ جو ایک مدت کے جمود و اعراض کے بعد پیروان مذاہب پر طاری ہوجاتی ہے لیکن مقصود اس سے مدینہ کے منافق نہیں ہیں ا۔ 7۔ یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئ کہ ان احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں نفاق کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا ہے جس میں یہ خصلت ہو تو سمجھ لو نفاق کی خصلت آگئی مثلاً : اربع من کن فیہ ، کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق (بخاری) ولو صلیٰ ولاں وزعم انہ مسلم (مسلم) یعنی چار خصلتیں ہیں جس میں یہ چاروں جمع ہوجائیں وہ پورا منافق ہے اور جس میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی۔ مسلم کے الفاظ میں یہ بھی ہے ” اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو ، روزہ رکھتا ہو اور اس زعم میں ہو کہ مسلمان ہے “ پھر دو خصلتیں بیان کی ہیں جو سچے مومن میں نہیں ہونی چاہئیں مثلاً : امانت میں خیانت ، جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی ، غصہ میں آکر بےقابو ہوجانا۔ تو معلوم ہوا نفاق کوئی ایسی حالت نہ تھی جو صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہو اور نہ منافقوں کا گروہ کوئی ایسا گروہ تھا جو محض چھپے کافروں کا ایک سازشی گروہ ہو۔ یہ ایمان و عمل کی کمزوری کی ایک زیادہ سخت حالت ہے اور جس طرح اس زمانہ میں تھی اسی طرح ہر زمانے میں ہو سکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ آج اگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے ایمان و عمل کا احتساب کرے تو اس کو معلوم ہوجائے کہ نفاق کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں وہ اپنے ہی وجود میں اسے دیکھ سکتی ہے۔ 8۔ یہ جو قرآن نے انسان کے عقائد و اعمال کی تین حالتیں قرار دیں۔ ایمان ، کفر ، نفاق تو فی الحقیقت عام ہستی کے تمام گوشوں میں اصلاً تین ہی حالتیں پائی جاتی ہیں یا تو تکوین کی حالت ہوگی یا پھر دونوں کی درمیانی حالت خود اپنے وجود ہی کو دیکھ لو یا زندگی ہے یا موت یا بیماری ، بیماری کو نہ تو زندگی کی صحیح حالت کہ سکتے ہیں ، نہ ہی موت قرار دے سکتے ہیں۔ دونوں کے بین بین ہے لیکن رخ اس کا موت ہی کی طرف ہے۔ قلب و روح کا بھی یہی حال ہوا ، ایمان زندگی ہے۔ کفت مور ہے اور نفاق بیماری۔ یہ مقام مہمات قرآنی میں سے ہے لیکن : گر نو یسم شرح آں بیحد شود ! مثنوی ہفتاد من کاغذ شود !
Top