Urwatul-Wusqaa - At-Tawba : 80
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ١ؕ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
اِسْتَغْفِرْ : تو بخشش مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اَوْ : یا لَا تَسْتَغْفِرْ : بخشش نہ مانگ لَهُمْ : ان کے لیے اِنْ : اگر تَسْتَغْفِرْ : آپ بخشش مانگیں لَهُمْ : ان کے لیے سَبْعِيْنَ : ستر مَرَّةً : بار فَلَنْ يَّغْفِرَ : تو ہرگز نہ بخشے گا اللّٰهُ : اللہ لَهُمْ : ان کو ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : کیونکہ وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع)
آپ ﷺ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں آپ ﷺ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا ، یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر کبھی راہ نہیں کھولتا
منافقین کے حق میں سخت گیری کی تاکید مزید اور استغفار کی ممانعت : 106: پیچھے آیت 73 میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر سختی کرنے کا حکم فرمایا۔ اس آیت نے اس سختی کی تشریح فرما دی کہ وہ سختی آپ کس طرح فرمائیں ؟ حکم ہوتا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! آپ تو سراپا رحمت و شفقت تھے اس وجہ سے ان منافقین کی تمام شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کے باوجود ان کی اصلاح اور نجات میں لگے رہے اور ان کی فلاح آپ ﷺ کو اس قدر عزیز تھی کہ آپ ان کے لئے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ برابر اپنے رب کریم سے مغفرت طلب کرتے تھے یعنی دوسرے مسلمانوں کے ساتتھ ساتھ ان نام کے مسلمانوں کی اصلاح و فلاح کی دعائیں بھی کرتے رہتے تھے لیکن ان کی شقاوت اس قدر بڑھ گئی کہ یہ اس بات کو بھی گوارا کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ کوئی دوسرا بھی اسلام کی خیر خواہی کرے بلکہ یہ لوگ ہر خیرا خواہ کے حوصلہ کو پست کرتے رہے۔ اب آپ کو اس بات کی تاکید کی جاتی ہے کہ آئندہ ایسے لوگوں کے لئے آپ مغفرت کی دعا مطلق نہ کریں لیکن اگر آپ کریں گے بھی تو اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کو کسی حال میں بھی بخشا نہیں جائے گا اور تاکید کے لئے اللہ نے فرمایا کہ آپ ستربار بخشش طلب کریں تو بھی ان کو نہیں بخشا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہاں ستر بار سے عدد گنتی مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے کہ آپ چاہیں کتنی بھی بخشش ان کے لئے طلب کریں ان کو ہرگز ہرگز نہیں بخشا جائے گا کیونکہ ان کا حا تمہ ہی منافقت پر ہونے والا ہے اور فیصلہ علم الٰہی کا ہے۔ ” اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا۔ “ اس لئے کہ مغفرت کی بنیاد یعنی ایمان ہی سرے سے مفقود ہے اور منافقین کے حق میں دعا اور عدم دعا دونوں عدم نفع کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین مدینہ کا رئیس و سردار تھا لیکن اس کا بیٹا عبداللہ سچا مومن اور مخلص تھا۔ باپ کے مرنے پر آکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں اس کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ آپ اٹھے اور حضرت عمر ؓ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی عرض کرنے کا باوجود آپ ﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ علاوہ ازیں اپنا پیراہن عطا کرنے کی روایات بھی موجود ہیں۔ آپ ﷺ کے جنازہ پڑھانے کے بعدو لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ الخ آیت نازل ہوئی جو آگے آرہی ہے۔ ان آیات اور آپ ﷺ کے اس عمل سے لوگوں کے سارے طبقات نے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ صوفیائے کرام نے اپنے مزاج کے مطابق ، علمائے کرام نے اپنے مزاج کے مطابق ، مفتیوں نے اپنے مزاج کے مطابق ، مفسرین نے اپنے مزاج کے مطابق ، سیاسیی مزاک کے لوگوں نے اپنے مزاج کے مطابق اور محققین نے اپنے مزاج کے مطابق اور اسی طرح متقدمین نے اپنے مزاج کے مطابق لیکن ہم ان ساری باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ غور کرو کفر و نفاق کتنی سخت چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے پیغمبر بر حق اور وہ بھی نبی اعظم و آخر ﷺ تک کی سفارش بےاثر رہتی ہے اس لئے اس سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہئے۔ نیز یہ کہ نبی اعظم و آخر ﷺ کی موجودگی میں نفاق تھا اور آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی حقیقت کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔ قرآن کریم نے ” کفر “ کی طرح ” نفاق “ کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے اور منافقوں کے اعمال و خصائل کی سب سے زیادہ تفصیل اسی صورت میں ملتتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے کہ نفاق کی حقیقت کیا ہے اور منافقوں کی جماعت کس طرح کی جماعت تھی ؟ 1۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو تین طرح کے آدمی ضرور ہوتے ہیں : 1 ۔ مستعد اور صالح طبیعتیں ، یہ ہر اچھی بات کو پہچان لیتی اور قبول کرلیتی ہیں اور پھر سر گرم عمل بھی ہوجاتی ہیں۔ 2 ۔ مفسد طبیعتیں ، انہیں ہر اچھی بات سے انکار ہوتا ہے۔ کوئی سیدھی بات ان کے اندر اترتی نہیں۔ 3 ۔ درمیانی گروہ ، ہر بات کو سن لینے اور مان لینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے لیکن فی الحقیقت اس کے اندر تیاری نہیں ہوتی وہ قدم اٹھا دیتا ہے مگر چلنا نہیں چاہتا اور چلتا ہے تو پہلے ہی قدم پر لڑکھڑا جاتا ہے۔ اس میں پہلے گروہ کی مستعدی نہیں ہوتی کہ جو بات مان لی اسے ٹھیک ٹھیک مان لے اور عمل کرے۔ اس میں دوسرے گروہ کی بےباکی و جرات بھی نہیں ہوتی کہ یکسو ہو کر صاف صاف انکار کردے۔ پس گو وہ سمجھتا ہے کہ ایک راہ اختیار کرلی ہے لیکن فی الحقیقت دونوں راہوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقرار کا تعلق ہے قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے ، جہاں تتک اذھان و عمل کا تعلق ہے منکروں کی سی جماعت میں۔ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِكَ 1ۖۗ لَاۤ اِلٰى ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰى ہٰۤؤُلَآءِ (4 : 143) جزم و یقین اور عزم و عمل پہلے گروہ کا خاصا ہے۔ انکار و حجود دوسرے کا اور شک و تذبذب اور بےعملی کا تعطل تیسرے کا۔ بعینہ یہی حال ایمان و عمل کے دائرہ کا بھی ہے۔ یہاں بھی طبیعت انسانی کی یہ تینوں حالتیں ظہور میں آتی ہیں۔ مستعد طبیعتیں قبول کرلیتی ہیں۔ ” یہ مومن ہیں “ مفسد انکار کرتے اور مخالفت میں سرگرم ہوجاتے ہیں ” یہ کافر ہیں “ کچھ لوگ قبول کرلیتے ہیں لیکن فی الحقیقت قبولیت کی روح ان کے اندر نہیں ہوتی۔ ” یہ منافق ہیں۔ “ 2۔ قرآن نے کفر کی طرح نفاق کے اعمال و خصائص بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کئے کیونکہ کفر کی طرحنفاق بھی محض عہد نزول ہی کی پیداوار نہ تھا ، ہمیشہ ظہور میں آنے والی گمراہی تھی اور انسان کی گمراہیاں کسی خاص عہد و نسل کی نہیں بلکہ نوع انسانی کی گمراہیاں ہوتی ہیں ی۔ 3۔ ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں ، منافقوں کا گروہ کافروں کا کوئی خاص سازشی گروہ تھا جو جاسوسوں کی طرح بھیس بدل کر مسلمانوں میں رہنے لگا تھا ، باہر نکلتا تو مسلمان بن جاتا ، اکیلے میں ہوتا تو اپنے اصلی بھیس میں لوٹ آتا حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن و حدیث کی صاف صاف تصریحات کو جھٹلانا ہے۔ ان لوگوں نے اسلام بطور اپنے دین و اعتقاد کے اسی طرح اختیار کرلیا تھا جس طرح دوسرے مسلمانوں نے۔ چناچہ اسی سورت کی آیت (74) میں ہے کہ : وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ اسلام لا کر پھر کفر کی باتیں کیں وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے۔ ان کی بیویاں انہیں مسلمان سمجھتی تھیں ، ان کے بچے انہیں مسلمان سمجھتے تھے ، ان کے گھر کا ہر فرد یقین کرتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ وہ نماز پڑھتے تھے ، روزہ رکھتے تھے۔ اسلام کے طریقے پر اولاد کی پرورش کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سرغنہ تھا لیکن اس کا لڑکا منافق نہ تھا ، مخلص مومن تھا۔ اسی طرح تمام منافوں کی اولاد احفاد مخلصوں کی جماعت نکلی جہاں تک کسی دین کو بطوع ایک دین کے اختیار کے لینے کا تعلق ہے ، کوئی بات ایسی نہ تھی جو بظاہر ان کے مسلمان ہونے کے خلاف ہو تاہم قرآن نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں کیونکہ اسلام کا گھونٹ تو انہوں نے پی لیا تھا لیکن حلق کے پیچھے نہیں اترا تھا۔ کسی تعلیم کو اختیار کرلینے کے بعد یقین و عمل کی جو روح پیدا ہونی چاہئے تھی اس سے یک قلم محروم تھے۔ اخلاص اور صداقت کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ اللہ کا کلام سنتے مگر اس لئے نہیں کہ عمل کریں بلکہ اس لیئے کہ محض سنتے رہیں۔ وہ نماز پڑھتے مگر بےدلی کے ساتھ ، وہ خیرات کرتے مگر مجبور ہو کر۔ ان کے دلوں میں دین سے زیادہ دنیا کا عشق تھا۔ اسلام کے جو احکام ان کے شخصی اغراض کے خلاف نہ ہوتا تو وہ سب سے پہلے مومن تھے ، جب کبھی قربانیوں کا موقع آجاتا تو سب سے آخری صفوں میں بھی دکھائی نہ دیتے۔ جہاد کے تصور سے ان کی روحیں لرز جاتیں۔ انفاق کا حکم ان کے لئے پیام موت ہوتا۔ اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے دونوں طرح ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے اگر بازی الٹ پڑی اور دشمن فتح مند ہوگئے تو ان کے پاس بھی اپنی جگہ بنی رہے گی۔ ایمان و کفر کی طرح نفاق کی تمام حالتیں بھی یکساں نہیں اور نہیں تھیں چونکہ اصل کے اعتبار سے یہ حالت بھیا نکار ہی کی ایک اقرار نما صورت ہے اس لئے جب بڑھتی ہے تو انکار قطعی ہی کی طرف بڑھتی ہے اور اسی کے خصائص رونما ہونے لگتے ہیں کسی میں کم ، کسی میں زیادہ۔ چناچہ اس عہد کے منافقوں کی حالت یکساں نہ تھی۔ عبداللہ بن ابی کا نفاق ہر منافق کا نفاق نہ تھا۔ خود قرآن نے اسی صورت کی آیت (101) میں اس طرف اشارہ کیا ہے : وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ 1ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ 1ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ 1۫ کسی کے نفاق کا رخ زیادہ تر اس طرف تھا کہ ہجرت سے جی چراتے تھے ، کسی پر انفاق مال شاق تھا ، کوئی جہاد سے بچنا چاہتا تھا ، کسی پر نماز کا قیام سخت گزرتا تھا ، کوئی ایسا تھا کہ احکام الٰہی اور آیات قرآنی کی ہنسی اڑاتا تھا اور اس تاک میں تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی آفت آپڑے تتو کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ ہوجا۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ ان سب نے اسلام بطور اپنے دین و طریقہ کے قبول کرلیا تھا اور مسلمانوں ہی میں سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ محض ایک سازشی گروہ بھیس بدل کر مسلمانوں میں آملا ہو اور مسلمانوں میں سے نہ ہو۔ 4۔ اب غور کرو ، یہاں منافقوں کے اعمال و خصائص کیا کیا بیان کئے ہیں : (ا) جب راہ حق میں جان و مال کی قربانی کا وقت آتا تو طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے اور کہتے ہمیں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے۔ (ب) مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ پھیلاتے۔ کمزور اور ناسمجھ آدمیوں کو گمراہ کرتے۔ ادھر کی بات ادھر کو لگاتے۔ (ج) جب کبھی جماعت کے لئے کوئی نازک وقت آجاتا تو اس طرح کی باتیں نکالتے کہ دوسروں کے دل بھی کمزور پڑجاتے اور کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ چناچہ احد میں انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر بھی کمی نہیں کی۔ (د) دینداری کے بھیس میں اپنا نفاق چھپاتے اور کہتے ، اس کام میں ہمارے لئے فتنہ ہے اس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ (ہ) مسلمانوں کی مصیبت ان کے لئے مصیبت نہیں ہوتی اور نہ ان کی خوشی ان کے لئے خوشی۔ (و) وہ کوئی جماعتی معاملہ پیش آجائے تو اس کا ہاتھ نہ دیتے اور طرح طرح کی فتنہ اندازیاں کرتے پھر اگر کوئی حادثہ پیش آجاتاتو کہتے ہم نے پہلے ہی یہ معلوم کرلی تھی اس لئے ساتھ نہیں دیا تھا اور پھر بجائے اس کے کہ قوم کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھیں۔ دل میں خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہوا ، کامیاب ہوئے۔ (ز) نماز پڑھیں گے تو اس بےدلی سے کہ معلوم ہوگا ایک بوجھ آپڑا ہے اور چاہتے ہیں کسی نہ کسی طرح ٹپک کر الگ ہوجائیں۔ (ح) نیکی کی راہ میں خوش دلی سے کبھی خرچ نہ کریں۔ کنجوسی ان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ (ط) قسمیں کھا کھا کر یقین دلائیں گے کہ ہمیں مخالف نہ سمجھو حالانکہ دل میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ (ی) چونکہ دلوں میں کھوٹ ہے ، اس لئے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور بہت سے کال دل کی خواہش سے نہیں بلکہ محض جماعت کے خوف سے کرتے ہیں۔ (ک) چونکہ راہ حق کی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں اور دل میں اخلاق و یقین نہیں ہے اس لئے بسا اوقات صورت حال سے ایسے مضطرب ہوجاتے ہیں کہ اگر چھپ بیٹھنے کی کوئی جگہ مل جائے تو فوراً رسی تڑا کا بھاگ کھڑے ہوں۔ (ل) غرض کے بندے ہیں۔ ان کی خوشنودی اور ناراضگی کا سارا دارومدار دنیا اور دنیا کا حصول ہے۔ اگر صدقات کی تقسیم میں انہیں بھی کچھ دے دیا جائے تو خوش رہیں گے ، نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھیں گے۔ (م) چونکہ ایمان اور راستی سے محروم ہیں ، اس لئے حق و ناحق کی کچھ پروا نہیں۔ جس طرح بھی ملے مال و دولت حاصل کرنی چاہئے۔ صدقات و خیرات کے مستحق نہیں لیکن اس کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں۔ (ن) اگر ان کی ہوائے نفس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو فوراً طعنہ زنی پر اتر آئیں کہ دوسروں کی طرف داری کی جاتی ہے۔ (س) پیغمبر اسلام محض مومنوں کا اخلاص پہچانتے اور انہیں قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ یہ بات منافقوں پر شاق گزرتی تھی کہ بعضوں نے کہا وہ کان کے کچے ہیں اور لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ (ع) جب دیکھتے ہیں ، ان کی منافقانہ روش پر عام برہمی پیدا ہوگئی تو قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلاتے اور انہیں اپنے سے راضی رکھنا چاہتے قرآن کہتا ہے ، ان کی حق فراموشی دیکھو۔ انہیں خدا کی تو کچھ پروا نہیں کہ بدعملیاں کئے جاتے ہیں لیکن انسانوں کی اتنی پروا ہے کہ جونہی ان کی نگاہیں بدلی ہوئی نظر آئیں ، لگے خوشامد کرنے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے۔ فی الحقیقت انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں میں سے ایک عجیب بوالعجبی یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدعی ہوتا ہے اور اجنتا ہے کہ اس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ تاہم ہر طرح کی معصیتیں کئے جائے گا اور ایک لمہہ کے لئے اسے یہ خیال نہ ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں ؟ لیکن جونہی انسانوں کی نظر میں اس کی معصیتیں نمایاں ہوئیں ، اس کے ہوش و حواس گم ہوجائیں گے اور ہزار طرح کے جتن کرے گا کہ کہیں وہ اسے برا نہ سمجھنے لگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت اسے خدا کی ہستی کا یقین نہیں کیونکہ اگر یقین ہوتا ، اسی درجہ کا یقین ، جس درجہ کا یقین انسانوں کی موجودگی پر رکھتا ہے ، تو ممکن نہ تھا کہ اس سے بےپروا ہوجاتا۔ قرآن کہتا ہے یہی حالت نفاق کی حالت ہے۔ (ف) دین کے بارے میں ان کی زبانیں چھوٹ ہیں لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے بطور تفریح اور مزاح کے ایک بات کہہ دی تھی۔ سچ مچ تو ہمارا مطلب یہ نہ تھا۔ قرآن کہتا ہے ، یہ عذر گناہ بد تزار گناہ ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا تم اللہ ، اس کی آیتوں کی ، اس کے رسول کی ہنسی اڑاتے ہو۔ (ص) جس طرح مومن مرد اور عورت راہ حق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں ، اسی طرح منافق راہ نفاق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں۔ (ق) کذب گوئی ان کا شعار ہے۔ صریح ایک بات کہیں گے اور پھر انکار کردیں گے۔ (ر) بعضوں کا یہ حال ہے کہ عہد کرتے ہیں خدایا ، اگر تو ہم پر فضل کرے تو ہم تیری راہ میں خیرات کریں گے اور نیکی کی زندگی بسر کریں گے لیکن جب اللہ فضل کرتا ہے تو پھر بےتامل بخیلی پر اتر آتے ہیں اور کچھ اس کی راہ میں نہیں نکالتے۔ اس کی طرف سے رخ پھیرے رہتے ہی۔ (ش) ان کا ایک وصف یہ ہے کہ خود تو کچھ کریں گے نہیں لیکن کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے میں ہمیشہ بےباک رہیں گے۔ مثلاً اگر خوش حال آدمیوں نے بڑی بڑی رقمیں راہ حق میں نکالیں تو کہیں گے ، دکھاوے کے لئے یا دنیوی غرض کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی محنت مزدوری کی کمائی میں سے چار پیسے نکال کر رکھ دے تو اس کی ہنسی اڑائیں گے کہ واہ اچھی خیرات کی۔ (ت) راہ حق میں محنتیں ، مشقتیں برداشت کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ غزوہ تبوک کا معاملہ سخت گرمی میں پیش آیا تھا ، اس لئے لوگوں سے کہتے تھے اس گرمی کہاں جاتے ہو ؟ (ث) ایمان کے ضعف نے انہیں مردانگی کے احساس و غیرت سے بھی محروم کردیا ۔ جب لوگ قوم وملت کی راہ میں جان و مال قربان کرتے ہیں اور تو وہ عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ (خ) بعض لوگ دین داری کے بھیس میں ایسی راہیں نکالتے ہیں کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے۔ مثلاً ایک مسجد بنائی اور پیغمبر اسلام ﷺ سے عرض کیا ، آپ اس میں نماز پڑھا دیں تو ہمارے لئے برکت وسعادت ہو۔ مقصود یہ تھا کہ اپنے اجتماع کے لئے ایک نیا حلقہ پیدا کریں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو۔ (ذ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کی حالت میں شب و روز رہتے رہتے بڑے مشق ہوگئے ہیں۔ دوسرے اتنے مشاق نہیں جو مشاق ہیں تم انہیں تاڑ نہیں سکتے۔ (ض) کوئی سال نہیں گزرتا کہ ان کے لئے تنبیہہ و اعتبار کی کوئی نہ کوئی بات ظہور میں نہ آجاتی ہو لیکن غفلت کا یہ حال ہے کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں ، نہ عبرت پکڑتے ہیں۔ 5۔ سورة آل عمران ، نساء ، الانفال ، احزاب ، محمد ، فتح ، حدیہ ، مجادلہ اور حشر میں بھی منافقوں کے اعمال و خصائص بیان کئے گئے ہیں اور ایک پوری سورت منافقون انیی کے حالات میں ہے۔ چاہئے کہ اس موقع پر فہرست سے مدد لے کر وہ تمام مقامات بھی دیکھ لئے جائیں۔ 6۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ سورة بقر کی آیت (8) وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ہُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ۘ008 میں اور اس کی بعد کی آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، اس سے مقصود منافقوں کی یہ جماعت نہیں ہے بلکہ یہود ونصاریٰ ہیں جو ایمان اللہ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقتاً ایمان کی روح ان میں باقی نہیں رہی تھی۔ فی الحقیقت یہ حالت بھی نفاق ہی کی حالت ہے۔ جو ایک مدت کے جمود و اعراض کے بعد پیروان مذاہب پر طاری ہوجاتی ہے لیکن مقصود اس سے مدینہ کے منافق نہیں ہیں ا۔ 7۔ یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئ کہ ان احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں نفاق کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا ہے جس میں یہ خصلت ہو تو سمجھ لو نفاق کی خصلت آگئی مثلاً : اربع من کن فیہ ، کان منافقا خالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق (بخاری) ولو صلیٰ ولاں وزعم انہ مسلم (مسلم) یعنی چار خصلتیں ہیں جس میں یہ چاروں جمع ہوجائیں وہ پورا منافق ہے اور جس میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی۔ مسلم کے الفاظ میں یہ بھی ہے ” اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو ، روزہ رکھتا ہو اور اس زعم میں ہو کہ مسلمان ہے “ پھر دو خصلتیں بیان کی ہیں جو سچے مومن میں نہیں ہونی چاہئیں مثلاً : امانت میں خیانت ، جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی ، غصہ میں آکر بےقابو ہوجانا۔ تو معلوم ہوا نفاق کوئی ایسی حالت نہ تھی جو صرف آنحضرت ﷺ کے زمانہ ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہو اور نہ منافقوں کا گروہ کوئی ایسا گروہ تھا جو محض چھپے کافروں کا ایک سازشی گروہ ہو۔ یہ ایمان و عمل کی کمزوری کی ایک زیادہ سخت حالت ہے اور جس طرح اس زمانہ میں تھی اسی طرح ہر زمانے میں ہو سکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ آج اگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے ایمان و عمل کا احتساب کرے تو اس کو معلوم ہوجائے کہ نفاق کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں وہ اپنے ہی وجود میں اسے دیکھ سکتی ہے۔ 8۔ یہ جو قرآن نے انسان کے عقائد و اعمال کی تین حالتیں قرار دیں۔ ایمان ، کفر ، نفاق تو فی الحقیقت عام ہستی کے تمام گوشوں میں اصلاً تین ہی حالتیں پائی جاتی ہیں یا تو تکوین کی حالت ہوگی یا پھر دونوں کی درمیانی حالت خود اپنے وجود ہی کو دیکھ لو یا زندگی ہے یا موت یا بیماری ، بیماری کو نہ تو زندگی کی صحیح حالت کہ سکتے ہیں ، نہ ہی موت قرار دے سکتے ہیں۔ دونوں کے بین بین ہے لیکن رخ اس کا موت ہی کی طرف ہے۔ قلب و روح کا بھی یہی حال ہوا ، ایمان زندگی ہے۔ کفت مور ہے اور نفاق بیماری۔ یہ مقام مہمات قرآنی میں سے ہے لیکن : گر نو یسم شرح آں بیحد شود ! مثنوی ہفتاد من کاغذ شود !
Top