کیا ہم نے آپ ﷺ کے سینہ کو ہدایت کے لیے کشادہ نہیں کیا ؟
1 ؎ گزشتہ سورت کی آیت 4 میں یہ پیش گوئی بیان کی تھی کہ آپ ﷺ کی زندگی میں اب ہر آنے والی گھڑی گزرنے والی گھڑی سے بہتر ثابت ہوگی اور پھر آیت 8 میں ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے آپ ﷺ کو متلاشی پایا تو منزل مقصود تک پہنچا دیا ۔ اب زیر نظر سورت کی اس پہلی آیت میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اصل بندش اور گھٹن جو فطری طور پر آپ ﷺ کے اندر ہی اندربند رہ کر زور لگا رہی تھی اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟ یہ کہ ہم نے آپ ﷺ کے سینہ کو کشادہ کردیا۔ ( نشرح) جمع متکلم مضارع منفی مجزوم شرح مصدر ( فتح) کیا ہم نے نہیں کھول دیا ۔ شرح کا اصل معنی ہے گوشت کو پھیلا دینا ( تشریح) کا بھی اصل معنی یہی ہے شرحت اللحم اور شرحت دونوں ہم معنی ہیں ۔ توسیع استعمال کے بعد شرح الصدر کا معنی ہوگیا سینہ کو کشادہ کردینا ۔ اللہ کی طرف سے دل میں ایک خاص نور پیدا کردینا جس سے سکون و اطمینان پیدا ہوجائے ۔ شرح الکلام کسی کلام کے پوشیدہ معانی کا اظہار ، مبہم کی توضیح اور مجمل کی تفصیل ۔ اس جگہ آپ ﷺ کی شرح صدر پر جو کچھ لکھا گیا ہے ہمارے علم میں ہے لیکن کسی بات میں بھی جس طرح تفریط سے کام بگڑتا ہے بالکل اسی طرح افراد سے بھی کام بگڑتا ہے اور اسی افراط وتفریط نے یہود و نصاریٰ کو مبغوض اور ضالین بنایا ہے پھر جو چیز نقصان دہ ہو بلکہ دین کو ہلاک کر کے رکھ دینے والی ہو اس کو اختیار کر کے انسان ہلاک ہی ہوگا اس کے لیے بہتری کب ہو سکتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کی شرح صدر کا بیان کیا گیا ہے بالکل اسی طرح دوسرے ایمان والوں کے لیے بھی بیان کیا گیا ہے جیسا کہ اس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ ، جلد سوم سورة الانعام کی آیت 125 میں گزر چکی ہے اور پھر یہ بھی کہ جس طرح اہل ایما کا شرح صدر ایمان پر کیا گیا ہے اسی طرح کفار کے لیے شرح صدر کفر پر بھی کیا گیا ہے جس کی وضاحت عروۃ الوثقیٰ ، جلد پنجم سورة النحل کی آیت 106 میں کردی ہے اور وہ بھی قرآن کریم ہی ہے اور اس کا بیان بھی اسی طرح ہوا جیسا کہ آپ ﷺ کے شرح صدر کا اور پھر شرح صدر کے مقابلہ میں کفار کا قاسیۃ قلوب ہونے کا بیان کر کے اس مضمون کی مزید وضاحت فرما دی ہے جس کی وضاحت ہم نے عروۃ الوثقیٰ ، جلد ہفتم میں سورة الزمر کی آیت 22 میں کردی ہے ۔ ان محولہ سورتوں کے حوالوں کو جب آپ دیکھیں گے تو اس کی وضاحت خود بخود ہوجائے گی اس شرح صدر کا مفہوم و مطلب کیا ہے ؟ جب قرآن کریم ایک وضاحت خود پیش کر رہا ہے تو اس کی وضاحت کو چھوڑ کر کسی علاقہ ، فہامہ ، حضرت العلام اور مفتی و مولوی کی وضاحت کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اس کو اختیار کریں ۔ بس یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس طرح اس کی تفسیر بیان نہیں کی جس طرح ہمارے اکثر مفسرین نے کی ہے بلکہ ہم نے وہ طریقہ اختیار کیا ہے جس کی وضاحت خود قرآن کریم نے کی ہے اور نہ ہم اس تفسیر سے نا بلد اور ناواقف ہیں جو مفسرین نے اس جگہ اختیار کی ہے اور آپ دیکھیں گے کہ زیر نظر آیت کی وضاحت اس جگہ آنے والی آیت کس طرح کر رہی ہے۔