اور آپ ﷺ کے اس بوجھ کو آپ ﷺ سے اتار کر پھینک نہیں دیا ؟
2 ؎ ( وزرک) اسم مفرد منصوب مضاف ک ضمیر مضاف الیہ تیرا بوجھ ۔ وزر سے مراد اس جگہ قوم کی رسومات اور قوم کے رہنے سہنے کے طریقے اور معاشرت ہے جس طرح مکہ کے لوگ زندگی گزار رہے تھے اور آپ ﷺ اس کو دیکھ کر اندر ہی اندر اس بوجھ کے نیچے دبے جا رہے تھے اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو وحی کی نعمت سے نوازا اور معاشرت انسانی کا صحیح طریقہ بتا دیا جس میں توحید الٰہی کا درس تھا اور ان رسومات کی تردید تھی جن رسومات کو مکہ کے لوگ لازم و ضروری سمجھتے تھے اس کی وضاحت اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے کردی تو یہی آپ کے سینہ اقدس کو کھولنا ہے اور یہی آپ ﷺ کے بوجھ کو اتار پھینکنا ہے اور اس کی یہی وضاحت درست ہے اور تقریباً یہی وضاحت مفسرین نے اس جگہ کی ہے اس کو دو طرح سے ہم بیان کرسکتے ہیں کیونکہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے جو مفید مطلب ہے۔
ا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کو اپنی قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی تھی ۔ آپ ﷺ کی قوم کا مخلوق کو پوجنا اور خالق کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا ۔ فسق و فجور میں غرق رہنا ۔ قماربازی ، شراب نوشی میں اپنی صحبت اور دولت کو برباد کرنا ، غریبوں پر ظلم ڈھانا ، ان کے حقوق غضب کرنا ، باہمی جنگ وجدال اور قتل و غارت ، ان کی اخلاقی پستی ، ان کی معاشی بد حالی اور ان کی سیاسی ابتری ان تمام چیزوں کو دیکھ کر آپ ﷺ کو دکھ ہوتا تھا اور اس صورتحال کو یکسربدل ڈالنے کے لیے دل ہر وقت مضطرب رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو منصب نبوت و رسالت پر فائز کیا اور قرآن کریم جیسا صحیفہ ٔ رشد و ہدایت عطا فرمایا ۔ دین اسلام جیسا جامع اور مکمل نظام حیات مرحمت فرمایا جس سے بوجھ اتر گیا ۔ منزل کا یقین بھی ہوگیا اور اس منزل کی طرف لے جانے والا راستہ بھی نور نبوت سے روشن ہوگیا ۔ اس کے بعد کبھی آپ ﷺ کے دل پر باز نہ گزرا ۔
ب۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس بوجھ سے بارنبوت و رسالت مراد ہو کیونکہ ایسے لوگ جو صد ہا سال سے معبود ان باطل کی پاجا پاٹ میں مشغول تھے جن کی کئی پشتیں اخلاقی آوارگی کی نذر ہوچکی تھیں ، ظلم و ستم ، لوٹ مار جن کے نزدیک فخر و مباہات کا باعث تھی ان کو ان پستیوں سے نکال کر توحید ، اخلاق حسنہ ، نظم و ضبط کی بلندیوں پر لے جانا جان جو کھوں کا کام تھا اس راستہ میں مشکلات کے فلک بوس پہاڑ سینہ تان کر کھڑے تھے اور ناکامیوں کی عمیق غاریں منہ کھولے ہوئے نگل جانے کے لیے بےتاب تھیں اس غرض کی ادائیگی کا احساس دل کو ہر وقت بےچنص رکھتا تھا۔ ان کے تعصب وعناد باطل سے چمٹے رہنے پر ان کا احمقانہ اصرار اس بےچینی میں مزید اضافہ کردیتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے شرح صدر کی دولت سے آپ ﷺ کو مالا مال فرما دیا جس سے آپ ﷺ کا بوجھ بہت ہلکا ہوگیا طبیعت میں قلق و اضطراب کی جگہ صبر و عزیمت نے لے لی ۔ اپنی قوم کی بےاعتنائی اور دلآوایزیوں پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے ہمت و حوصلہ پیدا ہوگیا ۔
ولی الٰہی خاندان کے چشم و چراغ شاہ عبد العزیز (رح) نے زیر نظر آیت کی وضاحت میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” آپ ﷺ کی ہمت مال اور پیدائش استعداد جن کمالات و مقامات پر پہنچنے کا تقاضا کرتی تھی قلب مبارک کو جسمانی ترکیب یا جسمانی تشویشات کی وجہ سے ان پر قائم ہونا دشوار معلوم ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب سینہ اقدس کو کھول دیا اور حوصلہ کشادہ کردیا وہ دشواریاں جاتی رہیں اور سب بوجھ ہلکا ہوگیا “ اور یہی بات ہم نے اوپر عرض کی ہے۔