Tafseer-e-Usmani - Yunus : 106
وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَنْفَعُكَ وَ لَا یَضُرُّكَ١ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَلَا تَدْعُ : اور نہ پکار مِنْ دُوْنِ : سوائے اللّٰهِ : مَا : جو لَا يَنْفَعُكَ : نہ تجھے نفع دے وَلَا : اور نہ يَضُرُّكَ : نقصان پہنچائے فَاِنْ : پھر اگر فَعَلْتَ : تونے کیا فَاِنَّكَ : تو بیشک تو اِذًا : اس وقت مِّنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور مت پکار اللہ کے سوا ایسے کو کہ نہ بھلا کرے تیرا اور نہ برا پھر اگر تو ایسا کرے تو تو بھی اس وقت ہو ظالموں میں3
3 یعنی اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے اس کی نسبت شکوک و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو، تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص ہے) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت سے سخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لیے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری سب کی جانیں ہیں کہ جب تک چاہے انھیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم میں کھینچ لے گویا موت وحیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہوسکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے، ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی وخفی کا تسمہ نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں، استعانت کے لیے بھی اسی کو پکاریں، کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے۔ مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لیے پکارنا جو کسی نفع نقصان کی مالک نہ ہوں سخت بےموقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کو لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہوگا۔
Top