Tafseer-e-Usmani - Yunus : 23
فَلَمَّاۤ اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُكُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ١ۙ مَّتَاعَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اَنْجٰىھُمْ : انہیں نجات دیدی اِذَا : اس وقت ھُمْ : وہ يَبْغُوْنَ : سرکشی کرنے لگے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں بَغْيُكُمْ : تمہاری شرارت عَلٰٓي : پر اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں مَّتَاعَ : فائدے الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا ثُمَّ : پھر اِلَيْنَا : ہماری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا فَنُنَبِّئُكُمْ : پھر ہم بتلادینگے تمہیں بِمَا : وہ جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
پھر جب بچا دیا ان کو اللہ نے لگے شرارت کرنے اسی وقت زمین میں ناحق کی1 سنو لوگوں تمہاری شرارت ہے تمہی پر نفع اٹھالو دنیا کی زندگانی کا پھر ہمارے پاس ہے تم کو لوٹ کر آنا پھر ہم بتلا دیں گے جو کچھ کہ تم کرتے تھے2
1 یعنی ابتداء میں ہوا خوشگوار اور موافق تھی۔ مسافر ہنستے کھیلتے آرام سے چلے جا رہے تھے کہ یکایک ایک زور کا طوفانی جھکڑ چلنے لگا اور چاروں طرف سے پانی کے پہاڑ اٹھ کر کشتی (یا جہاز) سے ٹکرانے لگے۔ جب سمجھ لیا کہ ہر طرف سے موت کے منہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ بھاگنے اور نکلنے کی کوئی سبیل نہیں، تو سارے فرضی معبودوں کو چھوڑ کر خدائے واحد کو پکارنے لگے جو اصل فطرت انسانی کا تقاضا تھا، ہر چیز سے مایوس ہو کر خالص خدا کی بندگی اختیار کی اور بڑے پکے عہد و پیمان باندھے کہ اگر مصیبت سے خدا نے نجات دی تو ہمیشہ اس کے شکر گذار رہیں گے۔ کوئی بات کفران نعمت کی نہ کریں گے لیکن جہاں ذرا امن نصیب ہوا ساحل پر قدم رکھتے ہی شرارتیں اور ملک میں اودھم مچانا شروع کردیا، تھوڑی دیر بھی عہد پر قائم نہ رہے۔ (تنبیہ) اس آیت میں ان مدعیان اسلام کے لیے بڑی عبرت ہے جو جہاز کے طوفان میں گھر جانے کے وقت بھی خدائے واحد کو چھوڑ کر غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان نہ ہوا تھا۔ مکہ سے بھاگ کر بحری سفر اختیار کیا۔ تھوڑی دور جاکر کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا، ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ ایک خدا کو پکارو۔ یہاں تمہارے معبود کچھ کام نہ دیں گے۔ عکرمہ نے کہا کہ یہ ہی تو وہ خدا ہے جس کی طرف محمد ﷺ ہم کو بلاتے ہیں۔ اگر دریا میں رب محمد کے بدون نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی اس کی دستگیری اور اعانت کے بغیر نجات پانا محال ہے۔ اے خدا ! اگر تو نے اس مصیبت سے نکال دیا تو میں واپس ہو کر محمد ﷺ کے ہاتھ میں ہاتھ دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اخلاق کریمہ سے میری تقصیرات کو معاف فرمائیں گے۔ چناچہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے۔ ؓ 2 یعنی تمہاری شرارت کا وبال تمہیں پڑے گا۔ اگر چند روز شرارتیں کر کے فرض کرو کچھ دنیا کا نفع حاصل کر ہی لیا تو انجام کار پھر خدا کی طرف لوٹنا ہے۔ وہاں تمہارا سب کیا دھرا آگے آئے گا۔ خداوند رب العزت سزا دے کر بتلا دے گا کہ تمہارے کرتوت کیسے تھے۔
Top