Tafseer-e-Usmani - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر ہم دکھائیں گے تجھ کو کوئی چیز ان وعدوں میں سے جو کیے ہم نے ان سے یا وفات دیں تجھ کو، سو ہماری ہی طرف ہے، ان کو لوٹنا، پھر اللہ شاہد ہے ان کاموں پر جو کرتے ہیں1
1 یعنی ہم نے کفار کو عذاب دینے اور اسلام کو غالب و منصور کرنے کے جو وعدے کیے ہیں، خواہ ان میں سے بعض وعدے کسی حد تک آپ کی موجودگی میں پورے کر کے دکھلا دیے جائیں، جیسے " بدر " وغیرہ میں دکھلا دیا۔ یا آپ کی وفات ہوجائے۔ اس لیے آپ کے سامنے ان میں سے بعض کا ظہور نہ ہو۔ بہرصورت یہ یقینی ہے کہ وہ سب پورے ہو کر رہیں گے۔ اگر کسی مصلحت سے دنیا میں ان کفار کو سزا نہ دی گئی تو آخرت میں ملے گی۔ ہم سے بچ کر کہاں بھاگ سکتے ہیں۔ سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے اور ان کے تمام اعمال ہمارے سامنے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ " غلبہ اسلام کچھ حضرت ﷺ کے روبرو ہوا، اور باقی آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء " کے ہاتھوں سے۔ گویا نَتَوَفَّیَنَّکَ میں اس طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم۔
Top