Tafseer-e-Usmani - Yunus : 53
وَ یَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ١ؔؕۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠   ۧ
وَيَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں اَحَقٌّ : کیا سچ ہے ھُوَ : وہ قُلْ : آپ کہ دیں اِيْ : ہاں وَرَبِّيْٓ : میرے رب کی قسم اِنَّهٗ : بیشک وہ لَحَقٌّ : ضرور سچ وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم ہو بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
اور تجھ سے خبر پوچھتے ہیں کیا سچ ہے یہ بات تو کہہ البتہ قسم میرے رب کی یہ سچ ہے اور تم تھکا نہ سکو گے8
8 یعنی غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تعجب سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ ہم موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے ؟ کیا واقعی ریزہ ریزہ ہو کر اور خاک میں مل کر پھر ازسر نو ہم کو موجود کیا جائے گا ؟ آپ ﷺ فرما دیجئے کہ تعجب کی کیا بات ہے، یہ چیز تو یقینا ہونے والی ہے۔ تمہارا مٹی میں مل جانا اور پارہ پارہ ہوجانا خدا کو اس سے عاجز نہیں کرسکتا کہ پہلے کی طرح تمہیں دوبارہ پیدا کر دے اور شرارتوں کا مزہ چکھائے۔ ممکن نہیں کہ اس کے قبضہ سے نکل بھاگو اور فرار ہو کر (معاذ اللہ) اسے عاجز کرسکو۔ (تنبیہ) اس آیت کے مشابہ دو آیتیں قرآن کریم میں ہیں۔ ایک سورة " سبا " میں (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ ) 34 ۔ سبأء :3) دوسری " تغابن " میں (زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ) ۔ 64 ۔ التغابن :7) یہ دونوں قیامت اور معاد کے متعلق ہیں ان ہی کی مناسبت سے حافظ ابن کثیر نے آیت حاضرہ کو معاد کے متعلق رکھا ہے۔
Top