Tafseer-e-Usmani - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اے لوگوں تمہارے پاس آئی ہے نصیحت تمہارے رب سے اور شفاء دلوں کے روگ کی اور ہدایت اور رحمت مسلمانوں کے واسطے5
5 یہ سب صفات قرآن کریم کی ہیں۔ قرآن اول سے آخر تک نصیحت ہے جو لوگوں کو مہلک اور مضر باتوں سے روکتا ہے۔ دلوں کی بیماریوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ وصول الی اللہ اور رضائے خداوندی کا راستہ بتاتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں رحمت الٰہیہ کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ بعض محققین کے نزدیک اس آیت میں نفس انسانی کے مراتب کمال کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جو شخص قرآن کریم سے تمسک کرے ان تمام مراتب پر فائز ہوسکتا ہے۔ (1) اپنے ظاہر کو نالائق افعال سے پاک کرنا۔ لفظ " موعظت " میں اسکی طرف اشارہ ہے (2) باطن کو عقائد فاسدہ اور ملکات رویہ سے خالی کرنا جو " شِفَآءٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ " سے مفہوم ہوتا ہے۔ (3) نفس کو عقائد حقہ اور اخلاق فاضلہ سے آراستہ کرنا، جس کے لیے لفظ " ہدی " زیادہ مناسب ہے، (4) ظاہر وباطن کی درستی کے بعد انوار رحمت الٰہیہ کا نفس پر فائض ہونا، جو لفظ " رحمت " کا مدلول ہے۔ امام فخر الدین رازی (رح) نے جو تقریر کی ہے اس میں ان چار لفظوں سے شریعت، طریقت، حقیقت اور نبوت و خلافت کی طرف علی الترتیب اشارہ کیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں اور نہ اس قسم کے مضامین خالص تفسیر کی مد میں آسکتے ہیں۔
Top