Tafseer-e-Usmani - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست لَا خَوْفٌ : نہ کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
یاد رکھو جو لوگ اللہ کے دوست ہیں نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے2
2 ابن کثیر نے روایات حدیثیہ کی بناء پر اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ " اولیاء اللہ " (خدا کے دوستوں) کو آخرت میں اہوال محشر کا کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوں گے۔ بعض مفسرین نے آیت کو کچھ عام رکھا ہے یعنی ان پر اندیشہ ناک حوادث کا وقوع نہ دنیا میں ہوگا نہ آخرت میں۔ اور نہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر وہ مغموم ہوتے ہیں گویا خوف سے خوف حق یا غم سے غم آخرت کی نفی مراد نہیں بلکہ دنیا میں دنیاوی خوف و غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال مخالفت اعداء وغیرہ سے ہوسکتا ہے، وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا۔ ہر وقت ان کا اعتماد اللہ پر ہوتا ہے اور تمام واقعات تکوینیہ کے خالی از حکمت نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس اعتماد واعتقاد کے استحضار سے انھیں خوف و غم نہیں ستاتا۔ میرے نزدیک " لَاخَوْفُ عَلَیْہِمْ " کا مطلب یہ لیا جائے کہ " اولیاء اللہ " پر کوئی خوفناک چیز (ہلاکت یا معتدبہ نقصان) دنیا و آخرت میں واقع ہونے والی نہیں۔ اگر فرض کیجئے دنیا میں صورتاً کوئی نقصان پیش بھی آئے تو چونکہ نتیجہ وہ ان کے حق میں نفع عظیم کا ذریعہ بنتا ہے اس لیے اس کو معتدبہ نقصان نہیں کہا جاسکتا۔ رہا کسی سبب دنیاوی یا اخروی کی وجہ سے ان کو کسی وقت خوف لاحق ہونا، وہ آیت کی اس تقریر کے منافی نہ ہوگا کیونکہ آیت نے صرف یہ خبر دی ہے کہ ان پر کوئی خوفناک چیز نہ پڑے گی، یہ نہیں کہا کہ انھیں کسی وقت خوف لاحق نہ ہوگا۔ شاید لا یحزنون کے مناسب لایخافون نہ فرمانے اور لاخوف علیہم کی تعبیر اختیار کرنے میں یہ ہی نکتہ ہو۔ باقی لا یحزنون کا تعلق میرے خیال میں مستقبل سے ہے، یعنی موت کے وقت اور موت کے بعد غمگین نہ ہوں گے جیسا کہ فرمایا۔ (تَـتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا) 41 ۔ فصلت :30) اور فرمایا (لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ ھٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ) 21 ۔ الانبیاء :103) واللہ تعالیٰ اعلم بمرادہ۔
Top