Tafseer-e-Usmani - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اب یہ کہتا ہے اور تو نافرمانی کرتا رہا اس سے پہلے اور رہا گمراہوں میں4
4 موسیٰ (علیہ السلام) کئی لاکھ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے، فرعون کو خبر ہوئی تو ایک لشکر جرار لے کر تعاقب کیا۔ تاکہ اس کے پنجہ ظلم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ بنی اسرائیل جب بحرقلزم کے کنارے پہنچے تو سخت پریشان ہوئے، آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر دباتا چلا آرہا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی اور حق تعالیٰ کے حکم سے لاٹھی دریا پر ماری۔ سمندر کا پانی ادھر ادھر کھڑا ہوگیا اور درمیان میں خدا نے بارہ راستے خشک بنا دیئے۔ یہ پار ہوئے، ادھر فرعون لشکر سمیت سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ خشک راستے دیکھ کر سب نے اسی میں گھوڑے ڈال دیے جب ایک ایک کر کے تمام فوج دریا کے وسط میں پہنچی، پانی کو حکم ہوا کہ مل جائے فوراً پانی کے طبقات مل گئے، سب لشکر اور سامان موجوں کی نذر ہوگیا۔ فرعون نے دیکھا کہ اب ڈوبتا ہوں اس وقت گھبرا کر ایمان و اسلام کا لفظ زبان پر لایا کہ شاید بنی اسرائیل کا خدا " ایمان " کا لفظ سن کر دریا کی موجوں سے باہر نکال دے۔ اس پر خدا کی طرف سے ارشاد ہوا (اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ ) 10 ۔ یونس :91) یعنی ساری عمر مخالف ہو کر گمراہی پھیلاتا اور شرارتیں کرتا رہا۔ اب عذاب دیکھ کر یقین لایا اس وقت کا یقین کیا معتبر ہے۔ (فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا ۭ سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ ۚ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ ) 40 ۔ غافر :85) (تنبیہ) قبض روح اور معائنہ عذاب کے وقت ایمان لانا " ایمان غرغرہ " یا " ایمان باس " یا " ایمان یاس " کہلاتا ہے۔ جو " اہل السنت والجماعت " کے نزدیک نافع نہیں شیخ عبدالوہاب شعرانی نے " کتاب الیواقیت والجواہر " میں " فتوحات مکیہ " سے عبارت نقل کی ہے۔ جس میں ایمان فرعون کی بابت یہ ہی تصریح ہے اور دیباچہ میں لکھا ہے کہ " فتوحات کے " نسخوں میں ملحدین وزنادقہ نے بہت سی عبارتیں مدسوس کردی ہیں میرے پاس جو نہایت مستند و معتبر نسخہ " فتوحات " کا ہے اس میں ان عبارتوں کا پتہ نہیں واللہ اعلم۔ (فائدہ) اخیر وقت میں فرعون سے لفظ " امنت " کہلا کر حضرت موسیٰ کی دعاء (لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ) 26 ۔ الشعراء :201) کی مقبولیت کا خدا نے مشاہدہ کرا دیا۔
Top