Tafseer-e-Usmani - Yunus : 97
وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ
وَلَوْ : خواہ جَآءَتْھُمْ : آجائے ان کے پاس كُلُّ اٰيَةٍ : ہر نشانی حَتّٰى : یہانتک کہ يَرَوُا : وہ دیکھ لیں الْعَذَابَ : عذاب الْاَلِيْمَ : دردناک
اگرچہ پہنچیں ان کو ساری نشانیاں جب تک نہ دیکھ لیں عذاب دردناک1
1 بظاہر یہ خطاب پیغمبر ﷺ کو ہے لیکن حقیقت میں آپ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے جو ایک امی کی زبان سے ایسے عظیم الشان حقائق و واقعات سن کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور جہل و تعصب کی وجہ سے ان کی واقعیت میں شک و تردد کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ آپ خود اپنی لائی ہوئی چیزوں میں کیسے شک و شبہ کرسکتے تھے اور جس کی طرف تمام دنیا کو دعوت دیتے اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین سننے والوں کے قلوب میں پیدا کردیتے تھے، اس کو خود اپنی زبان سے کیسے جھٹلاتے۔ چند آیات کے بعد صاف فرما دیا (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ ښ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) 10 ۔ یونس :104) یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ شک کرنے والے دوسرے لوگ تھے جن کے مقابلہ میں آپ اپنے غیر متزلزل اور اٹل عقیدہ کا اعلان کر رہے ہیں۔ بہرحال ان آیات میں پیغمبر کی زبان سے قرآن کے ہر ایک مخاطب کو متنبہ کیا کہ کفر و تکذیب کی بیماری شک سے شروع ہوتی ہے۔ اگر تم کو قرآن کے بیان کردہ واقعات میں شک و شبہ پیدا ہو تو اس کا فوراً علاج کرو۔ یعنی جو لوگ کتب سابقہ کا علم رکھتے ہیں، ان سے تحقیق کرلو۔ آخر ان میں کچھ آدمی سچے اور انصاف پسند بھی ہیں۔ وہ بتائیں گے کہ نبی اُمّی نے جو کچھ بیان فرمایا کہاں تک درست ہے۔ بلاشبہ جو کچھ آپ لائے وہ سچ کے سوا کچھ نہیں، وہ پروردگار کا اتارا ہوا ہے جس میں شک و تردد کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اگر بیہودہ شکوک کا علاج نہ کیا جائے تو چند روز میں شک ترقی کر کے امتراء (جدل) اور " امتراء " ترقی کر کے تکذیب کی حد تک جا پہنچے گا جس کا نتیجہ خسران و خرابی کے سوا کچھ نہیں۔ تکذیب کے بعد ایک اور درجہ ہے۔ جہاں پہنچ کر دل پر مہر لگ جاتی ہے تکذیب کرتے کرتے قبول حق کی استعداد بھی برباد ہوجاتی ہے۔ ایسا شخص اگر دنیا جہان کے سارے نشان دیکھ لے تب بھی ایمان نہ لائے۔ اسے عذاب الیم دیکھ کر ہی یقین آئے گا۔ جبکہ اس یقین سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ (فائدہ) کَلِمَۃُ رَبِّکَ (رب کی بات) سے مراد غالباً وہ ہے جو دوسری جگہ فرمایا۔ (لَاَمْلَــــَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) 11 ۔ ہود :119) یعنی دوزخ کو جن و انس سے بھروں گا۔ جن لوگوں پر بدبختی، سوء استعداد اور شامت اعمال سے یہ بات علم الٰہی میں ثابت ہوچکی۔ یہاں ان کا ذکر ہے۔
Top